حزب اللہ کے نئے سربراہ نعیم قاسم: سکول ٹیچر سے عسکری تنظیم کی قیادت تک

143

حزب اللہ نے اپنے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نعیم قاسم کو لبنانی عسکری تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کردیا ہے۔

حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصراللہ گذشتہ مہینے جنوبی بیروت میں اسرائیلی حملے میں تنظیم کے دیگر سینیئر اراکین کے ساتھ مارے گئے تھے۔

نعیم قاسم حزب اللہ کے اُن چند سینیئر رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو اسرائیلی حملوں میں محفوظ رہے ہیں۔

ستمبر کی 27 تاریخ کو حسن نصراللہ کی موت کے تین دن بعد نعیم قاسم نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ان کی تنظیم جلد ہی نیا سربراہ منتخب کر لے گی اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے اسرائیل کے خلاف لڑائی جاری رکھے گی۔

حزب اللہ کے اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی سیاسی اور سکیورٹی ایمرجنسی کے نتیجے میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل تنظیم کے سیکریٹری جنرل کے نمائندے کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔

تنظیم کے سیکریٹری جنرل کی موت کی صورت میں حزب اللہ کی شوریٰ ایک اجلاس منعقد کر کے تنظیم کا نیا سربراہ منتخب کرتی ہے۔

نیا سربراہ مقرر نہ ہونے تک ڈپٹی سیکریٹری جنرل بطور سیکریٹری جنرل خدمات سر انجام دیتا ہے۔

نعیم قاسم کون ہیں؟

حزب اللہ کے نئے سربراہ کا پورا نام محمد نعیم قاسم ہے اور وہ فروری 1953 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

انھوں نے دینی تعلیم لبنان کے جید شیعہ علما سے حاصل کی تھی اور اس کے علاوہ انھوں نے سنہ 1977 میں ایک لبنانی یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔

اس کے بعد انھوں نے تقریباً چھ برس تک سیکنڈری سکول میں بطور ٹیچر کام کیا اور اس کے علاوہ انھوں نے لبنان کی وزارتِ تعلیم سے منسلک ٹیچرز کالج سے بھی درس و تدریس کی تربیت حاصل کی۔

بی بی سی عربی کے مطابق نعیم قاسم کم عمری سے ہی مساجد میں بچوں کو ہفتہ وار پڑھاتے تھے اور انھوں نے یونیورسٹی میں اپنے ہم جماعت طالب علموں کے ساتھ مل کر یونین آف مسلم سٹوڈنٹس کی بنیاد رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

ان کا مقصد یونیورسٹیز اور سکولوں میں طلبہ میں مذہبی خیالات کو فروغ دینا تھا۔

امل میں شمولیت

امام موسیٰ الصدر نے سنہ 1974 میں سیاسی و عسکری تنظیم ’امل‘ کی بنیاد رکھی تھی اور نعیم قاسم نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی۔

وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنھوں نے گروہ کے پہلے اجلاس میں شرکت کی اور اسے لبنان کے دوسرے علاقوں تک پھیلایا۔

نعیم قاسم امل میں ترقی پاتے پاتے ایسے عہدے پر فائز ہوئے جہاں انھیں کلچر اور نظریات پھیلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب امل کے سربراہ امام موسیٰ الصدر لیبیا میں لاپتہ ہو گئے تھے اور حسین الحسینی سنہ 1978 میں تنظیم کے نئے سربراہ بن گئے تھے۔

تاہم سنہ 1979 میں ایران میں انقلاب کے بعد نعیم قاسم نے امل سے استعفیٰ دے دیا اور بیروت کی مساجد میں مذہبی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

تقریباً دو دہائیوں تک وہ لبنان بھر میں ’تبلیغی‘ سرگرمیوں میں فعل رہے اور بیروت میں مختلف مذہبی مقامات پر مذہبی لیکچرز دیتے رہے۔

نعیم قاسم المصطفیٰ سکولوں کی چھ شاخوں کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ ان سکولوں میں لبنان کا سرکاری اور اسلامی نصاب پڑھایا جاتا ہے۔

حزب اللہ کے نئے سربراہ ماضی میں ان کمیٹیوں میں بھی کافی متحرک رہے جو ایران میں انقلاب کے بعد بنائی گئی تھیں اور آیت اللہ خمینی کی حامی تھیں۔

یہ کمیٹیاں نہ صرف مارچ منعقد کرتی تھیں بلکہ ان کی جانب سے انقلابِ ایران کی حمایت میں لیکچرز بھی دیے جاتے تھے۔

حزب اللہ کا قیام

سنہ 1982 میں حزب اللہ کا قیام عمل میں آیا اور نعیم قاسم ان تمام اجلاسوں میں شامل تھے جن میں اس تنظیم کے قیام کا فیصلہ لیا گیا۔

وہ تقریباً تین مرتبہ حزب اللہ کی شوریٰ کے رُکن رہے اور ابتدائی طور پر گروہ کی تعلیمی سرگرمیوں کی ذمہ داری انھیں سونپی گئی۔

بعد میں وہ شوریٰ کے ڈپٹی چیئرمین اور چیئرمین کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔

سنہ 1991 میں عباس الموسوی حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل تھے اور اسی زمانے میں نعیم قاسم کو تنظیم کا ڈپٹی سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا۔

سنہ 1992 میں عباس الموسوی مارے گئے اور حسن نصر اللہ حزب اللہ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے تاہم نعیم قاسم کو کبھی ڈپٹی سیکریٹری جنرل کے عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔

نعیم قاسم حزب اللہ کے سیاسی ونگ کی سربراہی بھی کرتے ہیں اور پارلیمانی امور بھی ان کے زیرِ سایہ ہی چلتے ہیں۔

نعیم قاسم ہمیشہ سے ہی حزب اللہ کے ان رہنماؤں میں رہے ہیں جو سیاسی سرگرمیوں، میڈیا اور صحافیوں سے میل جول اور مذہبی لیکچرز میں آگے آگے رہے ہیں۔

حزب اللہ کے نئے سربراہ متعدد کتابیں بھی لکھ چکے ہیں اور ان میں سے ایک کتاب کا نام ’حزب اللہ‘ ہے جسے پڑھ کر حزب اللہ کے مقاصد، تاریخ اور سیاسی سوچ کا پتا چلتا ہے۔

گذشتہ تقریباً 35 برس تک نعیم قاسم کا حسن نصر اللہ سے براہِ راست تعلق رہا ہے۔ وہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان تمام لڑائیوں کے دوران تنظیم میں انتہائی متحرک بھی رہے ہیں۔

حزب اللہ پر متعدد بار اسرائیل کے خلاف بم حملوں کا الزام لگ چکا ہے اور امریکہ اور دیگر ممالک نے اسے ’دہشتگرد‘ تنظیم قرار دے رکھا ہے۔