یہ مسلمانوں کا چہرہ ہے، اسلام کا نہیں ۔ مولانا اسماعیل حسنی

415

یہ مسلمانوں کا چہرہ ہے، اسلام کا نہیں

تحریر : مولانا اسماعیل حسنی 

دی بلوچستان پوسٹ

اصولیین اور متکلمین علماء کے نزدیک ایمان لانے کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے تحقیقی ایمان اور دوسرا ہے تقلیدی ایمان۔ تحقیقی ایمان یہ ہے کہ بندہ دلیل و استدلال کی روشنی میں ایمان لے آئے اور تقلیدی ایمان کا مطلب یہ ہے بندہ خاندانی طور پر ایمان کا دعوی رکھے۔ قرآن کریم میں دو عجیب آیتیں ہیں۔

1 )

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَالۡكِتٰبِ الَّذِىۡ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَالۡكِتٰبِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ‌ؕ

[اے ایمان لانے والو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ان کتابوں پر جو پہلے نازل فرمائی تھیں ایمان لاؤ!]

ایمان لانے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ ایمان لاؤ۔۔۔ کیا مطلب؟ یعنی خاندانی دعوائے ایمان کافی نہیں۔ خود دلیل و بصیرت کے ساتھ ایمان لاؤ!

2)

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا‌ ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ‌ ۚ

[دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے ہو ۔ ہاں یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔]

یعنی ایمان لانا اور اسلام لانا۔۔۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہوئیں۔ ایمان لانے کا تذکرہ قرآن کریم میں کوئی 300 سے شائد مرتبہ آیا ہے لیکن اسلام قبول کرنے کا 30 کے آس پاس۔۔۔ اب ذرا غور کریں کہ ہم نے ایمان لایا ہے یا اسلام؟ آدمی خود پر غور و فکر کرسکتا ہے دوسروں پر نہیں۔ کیوں کہ ایمان کا تعلق دل کے ساتھ ہے، دل معاملات ہر صاحبِ دل خود جانتا ہے یا اللہ تعالی۔ مثلا قصد و ارادہ اور نیت وغیرہ یہ قلبی امور ہیں۔ (دل کے معاملات ہیں) ان امور کا انسان اور خدا کے درمیان پرائیویٹ تعلق ہے۔ کسی دوسرے فریق کے پاس کوئی پیمانہ یا اتھارٹی نہیں کہ وہ اس کو جانچے۔ ہمارے ہاں فساد کا سبب یہی ہے کہ دوسروں کی نیتیں جانچتے ہیں۔ خود اپنی حالت کیا ہے؟ تقلیدی ایمان کے اس کنارے پہ کھڑے ہیں کہ انکار و الحاد کی طرف سے اگر کوئی ہوا کا جھونکا بھی لگ جاتا ہے تو ہم سب کچھ چھوڑ دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور علماء نے تقلیدی ایمان سے متعلق اتفاق کیا ہے کہ وہ خدا کے ہاں معتبر ہی نہیں۔ ایمان وہی معتبر ہے جو تحقیقی اور شعوری بنیاد پر ہو۔ ایک امام اعظم ابوحنیفہ نے گنجائش نکالا ہے کہ تقلیدی ایمان معتبر تو ہے لیکن دلیل اور تحقیق نہ کرنے کی سزا بہرحال بھگتنی پڑے گی۔ جو بندہ خود اپنے ایمان سے متعلق سزا کے منتظر ہو وہ دوسروں کو ایمان کے معاملات میں سزا دے سکتا ہے؟ ہمارے ہاں جو ایمان کے دعوے دار ہیں، جو لوگوں کو اسلام میں داخل کا ذریعہ تو ہرگز نہیں بن سکتے لیکن نکالنے کےلیے ہر لمحہ تاڑ میں بیٹھے ہوتے ہیں، جن کا کردار ہرگز گفتار کا نمونہ نہیں، جن کے قول و فعل میں یکسر تضاد ہے۔ وہ لوگوں کے مرنے مارنے پر اس قدر جری ہوتے ہیں کہ کسی قابل تاویل لفظ میں اس حد تک موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ اپنا ارادہ و نیت ظاہر کرے جو اس کا پرائیویٹ طور پر خدا کے ساتھ معاملہ ہے۔ ان لوگوں کی شکلوں کو اگر یکجا کیا جائے تو ان کی یہ صورتیں بنیں گی۔ ایمان سے بتائیں کہ یہ شکلیں ایمان و اسلام تو کجا انسانی شکلیں ہیں؟ یہ تو وحشی لگ رہے ہیں۔ انسان تو کہتے ہی اسے ہیں جس میں اُنسیت و اپنائیت ہو۔ یہ چہرے خوف و وحشت کی علامتیں ہیں یا اُنسیت و اپنائیت کی؟ کیا اسلام خوف و وحشت کا دین ہے یا امن و محبت کا؟ بدقسمتی سے آج کے مسلم معاشرے کی غالب اکثریت کا چہرہ یہی ہے جو تصویروں میں نمایاں ہے۔ غور کیجیے کہ کیا یہ چہرے اسلام میں داخلے کا باعث بن سکتے ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار ہے۔