مکُران یونیورسٹی پنجگور کا بغیر کسی وضاحت کے بلوچی ڈپارٹمنٹ کو بند کرنا بلوچی زبان کے ساتھ زیادتی ہے-بساک

92

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ یونیورسٹی آف مکُران پنجگور کا بلوچی ڈپارٹمنٹ کو بغیر کسی جواز بند کرنا انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کررہا ہے۔ جن قواعد کو بلوچی ڈپارٹمنٹ کے لیے لاگو کیا گیا اور اس بنیاد پر ڈپارٹمنٹ کو بند کیا جارہا ہے ان قوانین کا اطلاق باقی کسی بھی ڈپارٹمنٹ کے لیے نہیں ہورہا۔ صرف بلوچی پر ان رولز کا اطلاق بلوچی زبان اور بلوچی زبان کے اسکالرز کے ساتھ زیادتی ہے۔ یونیورسٹی کے چانسلر کا کہنا ہے کہ بلوچی ڈپارٹمنٹ کو اس لئے بند کیا جارہا ہے کہ ایچ ایی سی قوانین کے مطابق بی ایس پروگرام میں داخلوں کے لئے ایف اے اور ایف ایس سی کا پچھلے تین سالوں کے دوران پاس کرنا ضروری ہے جبکہ بلوچی میں داخلہ لینے والے طلباء کا ایف اے یا ایف ایس سی تین سال سے پرانا ہے اس لئے ڈپارٹمنٹ کو بند کیا جارہا ہے۔

ترجمان نے کہاکہ یونیورسٹی آف مکران میں زیر تعلیم اکثریت ان طلباء کی ہے جنہوں نے تین سال سے پہلے بارہویں جماعت پاس کیا ہے جو کہ تعلیمی سہولت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے اور یونیورسٹی کے قیام کے بعد داخلہ لیا جن کے ایف اے اور ایف ایس سی کئ سال پرانے ہیں مگر ان کے داخلوں کے لئے یونیورسٹی نے کوئی اعتراض ظاہر نہیں کیا اگر باقی شعبوں میں پانچ دس سال پرانے ایف ایس سی کلیئر طلباء کو داخلہ دیا جا سکتا ہے تو صرف بلوچی کے لئے تین سال کے عرصے میں ایف ایس سی کرنے کا شرط بے بنیاد اور بلوچی زبان پڑھنے کی خواہش رکھنے والے طلباء کے ساتھ ناانصافی ہے جس کی ھم بھر پور مزمت کرتے ہیں-

انہوں نے کہاکہ حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ِیونیورسٹی میں تین سال پہلے ایف ایس سی مکمل کرنے والے طلباء اب بھی زیر تعلیم ہیں مگر صرف شعبہ بلوچی پر یہ رول لاگو کیا جارہا ہے ِِحالانکہ بِحیثیت مادری زبان بلوچی کیلئے اور بھی ریلیکسیشن پیدا کرنے کی ضرورت تھی مگر الٹا ڈپارٹمنٹ کو بند کردیا گیا جو کہ اپنے مادری زبان بلوچی پڑھنے کی حوصلہ شکنی ہے۔ مہذب دنیا کے ہر یونیورسٹیوں میں زبان کو اعلیٰ درجہِ دیا جاتا ہے لیکن بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں بلوچی زبان کو بلوچ طلباء سے دور کیا جارہا ہے۔ ہم بحیثیت سیاسی طلباء تنظیم یونیورسٹی آف مکران، ضلعی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کی جلد جامعہ مکران میں بلوچی زبان کو فعال کر کے بلوچ طلباء کو اپنی مادری زبان کو پڑھنے کا حق دیا جائے۔ اگر طلباء کے مطالبات سنجیدگی سے حل نہیں کیے گئے تو تنظیم یونیورسٹی آف مکران کے خلاف سیاسی مزاحمت کا حق رکھتی ہے۔