محمد یونس نے میری کمسن بچی سے جبری شادی کی – بسران بلوچ کی پریس کانفرنس

360

محمد یونس نے نہ صرف میری بچی کو اغواء کرکے جبری شادی کی ہے بلکہ نکاح پیپرز پر میری بچی کی عمر میری شادی سے ایک سال پہلے کر کے میری عزت اور آبرو پر حملہ کیا گیا – بسران بلوچ

بسران بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں محمد یونس ولد محمد حسن نے میرے بچی کو اغواء کر کے جبری شادی کیا ہے میری شادی حمل کے ساتھ 2004 پچیس نومبر کو ہوئی، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بچی سے نوازا، اور حمل 2010 کو اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور میں نے اپنی بچی کی پرورش کی، بچی کی تعلیم کے لئے میں نے بچی کو محمد یونس کے پاس بھیج دیا، محمد یونس علاقے میں تعلیم دوست کی حیثیت رکھتے تھے اور حمل کے رشتہ دار بھی تھے، اس طرح میں نے محمد یونس کو بچی کی باپ سمجھ کر اپنی بچی کو اس کے ہاں بھیج دیا۔

انہوں نے بتایا کہ حمل وراثت میں بہت بڑی جائیداد چھوڑ گئے تھے یوں محمد یونس کو جائیداد لوٹنے کی یاد ستانے لگی، اس نے مختلف حربے آزمائے لیکن میں نے ایک بہادر ماں کی حیثیت سے اپنی بچی کی جائیداد کی تحفظ کی، پھر اس نے ایک نئی جال سازی کی کہ میری بچی سے کسی بھی طرح شادی کرکے جائیداد پر قبضہ کرلے، یوں ہی اپنے لئے رشتہ لے آئے، میں یہ سن کر ششدر رہ گئی کہ آپ ایک باپ کے حیثیت سے بچی کی پرورش کر رہے ہیں بچی بھی آپ کو والد کہہ کر پکارتے ہیں پھر یہ کونسی انسانیت ہے کہ آپ اپنی بچی کی شوہر بننا چاہتے ہیں؟ میں نے ان سے التجا کی کہ آپ اپنی فیملی میں کسی کے ساتھ میری بچی کا رشتہ طے کریں جو کہ انکی عمر کی ہو، پھر محمد یونس نے میری بچی کا رشتہ اپنے بھتیجے شہاب سے طے کرلی۔

معزز صحافی حضرات، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شہاز اس رشتے سے ناخوش ہیں اور رشتہ تھوڑنا چاہتے ہیں، پھر محمد یونس کو فکر لاحق ہوئی کہ ابھی جائیداد ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا پھر اس نے ایک قبائلی میر، میر عبدالغنی ولد الہی بخش سکنہ بدرنگ گریشہ ، عبدالرحیم اور اکبر نزر خان کے ساتھ مل کر میری بچی کو اغواء کر کے کیچ تربت میں لے گئے وہاں ایک ملا کے گھر میں 16 فروری 2024 کو جبری نکاح کرلی، ظلم یہ ہے کہ میری شادی 2004 کو ہوئی تھی اور ان لوگوں نے میری بچی کی عمر نکاح پیپرز پر 2003 کرکے نہ صرف دروغ گوئی اور غلط بیانی کی ہے بلکہ میری شادی سے ایک سال پہلے میری بچی کی عمر کو ظاہر کرکے میرے عزت کو پامال کیا۔

بسران نے کہا کہ پھر اس کے ظلم کے خلاف میں حضدار پریس کلب جانے کا فیصلہ کیا پھر خضدار پریس کلب میں جا کر میں نے پریس کانفرنس کردی، اظہارِ رائے کو دباتے ہوئے پریس کلب کے انتظامیہ نے میری پریس کانفرنس کی لائیو کوریج کو ہٹا دیا، جب میں نال پولیس اسٹیشن پہنچ گیا تو نال کے ایس ایچ او نے گالی دے کر مجھے تھانے سے نکال دیا ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کیا. پھر میں نے 24 گھنٹوں کا نال میں دھرنا دیا پھر عوامی ردعمل کو دیکھ کر ایف آر درج ہوئی اور مجھے ملزم کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی گئی، لیکن اس کے فوراً بعد نال انتظامیہ نے ملزم کو سیف سائیڈ دے کر ایک پرائیویٹ جگے پر رکھا اور میری بچی کو خضدار میں غیر قانونی طور پر ایک قبائلی سردار کے حوالے کیا گیا، پھر ہم نے نال کے ایس، ایچ، او اسلام سے رابطہ کیا تو اس نے شٹ آپ کہہ کر ہماری فون کاٹ دی۔

ایک بار پھر میں نے اپنی فریاد لیکر خضدار پریس کلب پہنچی تو پریس کلب کے انتظامیہ نے ہمیں پریس کانفرنس کرنے نہیں دی پھر ہم نے بیچ سڑک پر پریس کانفرنس کرنے کی کوشش کی لیکن پریس کلب کے انتظامیہ نے لیویز فورس کو بلا کر ہمیں مار پیٹ کر وہاں سے ہٹایا. اس کے بعد نال سول ہسپتال کے انتظامیہ نے میری بچی کی غیر موجودگی میں ملزم کے کہنے پر ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ بنایا جس میں میری بچی کی عمر کو غلط لکھا، اس طرح علاقے کے میر، سردار، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن ملزم کو مکمل طور پر سپورٹ کر رہے ہیں میں آخر کہاں جاؤں؟ کون مجھے سنے گا؟ میری مطلقہ اداروں سے اپیل ہے کہ مجھے انصاف فراہم کریں اور ملزمان کو سخت سزا دیں، میری بچی کو مکمل تحفظ کے ساتھ میرے حوالے کریں، میں نہ صرف اپنی بچی کے لیے نکلاہوں بلکہ میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ کل کسی بھی ماں کے ساتھ ایسا نہ اس لیے میں تمام انسانوں حقوق کے علمبرداروں، صحافیوں اور تمام اقوام سے گزارش کرتی ہوں کہ میرے لیے آواز اٹھائیں۔