بی این ایم کی کابینہ کا تیسرا اجلاس: منظم قومی تحریک ہی پاکستانی درندگی کا مقابلہ کرسکے گی۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ

180

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کی صدارت میں پارٹی کابینہ کا تیسرا اجلاس منعقد ہوا جس میں مختلف ایجنڈے، علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کے جائزے اور پرحاصل تنقیدی نشست کے بعد کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

اس موقع پر چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچستان کے ناموافق حالات کے تناظر میں پارٹی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا بلوچ گلزمین پر بی این ایم کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان مشکلات کے باوجود پارٹی نے نئی حکمت عملی کے تحت مختلف صورتوں میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔

انھوں نے کہا حالات کیسے بھی ہوں بی این ایم اپنے نظریاتی دوستوں کے ہمراہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی کیونکہ منظم تحریک ہی پاکستانی درندگی کا مقابلے کرپائے گی اور تحریک کو منظم کرنے کا بہترین طریقہ پارٹی کی مکمل فعالیت ہے ۔

چیئرمین نے کہا بلوچستان میں لوگوں نے پاکستانی انتخابات سے لاتعلقی کا اظہار کرکے بلوچ آزادی پسند قوتوں کا ساتھ دیا۔ بلوچ عوام کے دل میں ریاست نے جو دہشت بٹھائی تھی اب وہ ختم ہوچکی ہے۔ تربت میں ملک ناز کی شہادت کے بعد بلوچستان میں جو بیداری پیدا ہوئی اور بلوچ قوم نے جس طرح اس واقعے پر تاریخی ردعمل دیا وہ اب بھی جاری ہے۔

انھوں نے مغربی بلوچستان میں سانحہ شمسر میں شہید ہونے والے بی این ایم کے مرکزی کونسلر شہید چیئرمین دوستا کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا مغربی بلوچستان میں پاکستانی فوج کے حملے کے نتیجے میں ایک مکمل خاندان شہید ہوا۔ یہ بلوچستان کے دردناک صورتحال میں ایک ہولناک خبر تھی۔اس راستے میں شہادتیں بھی ہیں لیکن اس طرح کے نقصانات کا درد کئی زیادہ ہے۔

’’ ریاست پاکستان تسلسل کے ساتھ بلوچوں کو قتل کر رہی ہے اور سانحہ شمسر اس کے جبر اور مظالم میں ایک اور نوعیت کا اضافہ ہے۔‘‘

انھوں نے کہا پاکستان کے جبر سے ہجرت کرنے والے ہزاروں خاندان ہمسایہ ممالک میں بدترین حالات سے دوچار ہیں جہاں انھیں بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین کےتحت مہاجرین کا درجہ حاصل نہیں۔ ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ انھیں باقاعدہ مہاجرین کا درجہ دے کر انھیں وہی حقوق دلائے جائیں جو اقوام متحدہ نے طے کیے ہیں اور پوری دنیا میں تسلیم شدہ ہیں۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے بی این ایم کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا بی این ایم بلوچستان کے قومی ، سیاسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے مسلسل ایڈوکیسی کر رہی ہے۔ نیدرلینڈز میں بی این ایم نے بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے تیسری عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران وہاں کمپئن چلائی گئی اور رواں سال مارچ کے مہینے میں یو این سیشن میں بھی جنیوا میں بی این ایم کی طرف سے پروگرامات کیے جائیں گے۔

 ہمیں بلوچستان کی آزادی کے لیے اپنی موجودہ کاوشوں سے زیادہ کام کرنا چاہیے ۔ دل مراد بلوچ

کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے کہا بلوچ قومی سیاست میں بلوچ نیشنل موومنٹ کا نمایاں کردار ہے۔ قومی آزادی کی جدوجہد میں بی این ایم واحدپارٹی ہے جس کے بانی لیڈرشپ سے لے کر کابینہ ، مرکزی کمیٹی اور کیڈرز و کارکناں نے بڑی تعداد میں اپنے سروں کی قربانی دی ہے۔ پارٹی قیادت ، کیڈرز اور کارکنوں کی ان عظیم قربانیوں کو مدنظر رکھ کر قومی کاز کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انقلابی پارٹیاں ہمیشہ حکمت عملی ، برداشت، باہمی احترام اور ٹیم ورک بنا کر بہتر رزلٹ دے سکتے ہیں۔ ہم نے پارٹی میں ہمیشہ ٹیم ورک اور باہمی احترام کے فلسفے پر کام کیا ہے۔ یہ ہمارے پارٹی کلچر اور روایات کا اہم حصہ ہے۔

انھوں نے کہا ہمیں مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہے جس میں ریاستی جبر و حیوانیت ، بلوچ مہاجرین کا مسئلہ، جیسے مسائل شامل ہیں لیکن ہم ان مسائل پرحکمت عملی سے قابو پا سکتے ہیں یا اپنے نقصانات کم کرسکتے ہیں۔ بہترین ٹیم ورک سے ہمارے کام کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ بی این ایم اپنی قریبی تنظیموں سے تعلقات کی تجدید کے عمل سے گزر رہی ہے۔ امید ہے کہ پرانے رشتوں کی تجدید سے ہم بہتر طریقے سے قومی کاز کے لیے کام کرسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا تحریک میں ایک مرحلہ یہ بھی آیا کہ گذشتہ چند سالوں سے قومی تحریک سے وابستگی کے باوجود ریاستی کریک ڈاؤن کی وجہ سے اظہار کے صورت حال میں نمایاں تبدیلی آئی لیکن ریاستی سفاکیت اور جنگی جرائم کے چند ایسے واقعات ہوئے جس نے بلوچ سماج کو ہلا ڈالا۔ ظلم و جبر اور نسل کشی کے اس سلسلے میں بلوچ سماج میں ریاستی خوف کے تنی چادر کو تارتار کردیا اور نیا ابھار سامنے آیا۔ جب بالاچ مولابخش بلوچ کا واقعہ ہوا تو یہاں سے تحریک نے نئی کروٹ لی ، مکران سے شروع احتجاجی سلسلہ ایک عظیم الشان لانگ مارچ میں تبدیل ہوگیا ، بلوچ وطن کے مختلف علاقوں میں بلوچستان کے سرحدی علاقے ڈیرہ غازی خان و تونسہ سے گزر کر پنجاب میں داخل ہوا اور نوآبادی اور قابض کے مرکز اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے دھرنے کا پروگرام بنایا۔

دل مراد بلوچ نے کہا یہ طے ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دارریاست نہیں ، پاکستان عالمی قوانین بشمول اپنی آئین کی پاسداری نہیں کرتا ، پاکستانی فوج بلوچستان میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے ، مستقبل قریب میں پاکستان کے جبر و تشدد، نسل کشی اور اجتماعی سزا کی حکمت عملی میں کوئی نمایاں فرق نظر آنے کاامکان کم ہے لیکن تحریک میں شامل تمام پارٹی اورتنظیموں کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کی اس سفاکیت کو دنیاکے سامنے لائیں اوربلوچ قوم کو مزید منظم و متحرک کریں ۔بلوچ لانگ مارچ بنیادی طور پر بلوچ قوم کا یہی پیغام لے کراسلام آبا دپہنچا تاکہ پاکستان اورعالمی دنیا کو سمجھائے کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں کس طرح جنگی جرائم کامرتکب ہورہی ہے۔

انھوں نے کہا بلوچ لانگ مارچ کو آزادی سے دھرنا دینے ،اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع دینے کے بجائے پاکستان نے اپنا نوآبادی چہرہ مزید نمایاں کیا ، لانگ مارچ کے شرکاء کی جبری ملک بدری کی کوشش کی ، بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا ،تشدد کے تمام حربے استعمال کیے لیکن شرکاء نے بہادری اور بلندحوصلگی سے تمام جبر و سفاکیت کا مقابلہ کرکے اپنا کیمپ قائم کیا،عالمی میڈیا،عالمی اداروں بشمول برطانوی پارلیمان کے ممبران نے بلوچ مسئلے کانوٹس لیا۔یہ بڑی کامیابی تھی چونکہ اسلام آباد نے بلوچ پیغام کو اہمیت نہ دی تو لانگ مارچ کے منتظمین نے واپس آ کر بلوچ قوم کو بتا دیا کہ اسلام آباد بلوچستان کو کالونی سمجھتا ہے اور کالونی کی طرح ٹریٹ کرتا رہے گا ، اب یہ بلوچ پر منحصر ہے کہ وہ آگے کیسے حکمت عملی بنا کر آگے بڑھے گی۔

دل مراد بلوچ نے کہا پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ریاست کے سربراہ یعنی وزیراعظم نے اقرار کیا کہ بلوچ اپنی شناخت کی بنیاد پر آزادی کی جنگ لڑے رہے ہیں ، اس سے پیشتر ریاست پاکستان بلوچ آزادی کی تحریک کے لیے مٹھی بھر عناصر ،چند ناراض لوگ وغیرہ جیسے اصطلاحات استعمال کرتی آئی ہے ،اس کے ساتھ ہی ریاست کے سربراہ نے اقرار کیا کہ فوج کے قید بلوچوں کو عدالتوں میں پیش کیا تو وہ بری ہوجائیں گے ،یعنی ریاست کا سربراہ اقرار کررہا ہے کہ بلوچ لاپتہ نہیں بلکہ فوج کے زندانوں میں قید ہیں ۔

دل مراد بلوچ نے کہا بلوچستان و ڈائسپورا کی سطح پر بی این ایم کے دوست بہترین انداز میں بلوچ نمائندگی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں لیکن جدید دنیا میں سفارت کاری بہت بڑا محاذ ہے ،بلوچستان جیسی جغرافیہ اور تزویراتی اہمیت کی حامل سرزمین پر جاری تحریک کے لیے ہماری موجودہ کاوشوں سے قطعی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں چند ممالک تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ نئی سفارتی دنیا تلاشنے کی ضرورت ہے ، یہ وقت بہت اہم ہے اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ، امید ہے کہ دوست تحریکی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر آگے بڑھیں گے ۔