بلوچ زندہ ضمیر ہونے کا ثبوت دے کر پارلیمانی سیاست اور انتخابات کا بائیکاٹ کریں۔ تربت مظاہرین

270

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ساتھیوں کی اسلام آباد میں پولیس کے ہاتھوں تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف تربت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ریلی نکالی گئی اور تعلیمی چوک پر مظاہرہ کرکے جلسہ کیا گیا۔

ریلی میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی، انہوں نے شھید فدا چوک سے سینما چوک تک مارچ کیا اور وہاں سے نعرہ بازی کرتے ہوئے تعلیمی چوک پہنچ کر دھرنا دیا جہاں دھرنا جلسہ شکل اختیار کرگئی۔

جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے شھید بالاچ مولا بخش کی بہن نجمہ بلوچ نے کہا کہ جو بلوچ الیکشن میں حصہ لے کر ووٹ کاسٹ کرنے جائے گا وہ بے ضمیر ہے، اس ماحول میں جب ہماری ماں بہنیں محفوظ نہیں اور بیٹیوں کے سر سے آنچل اتارے جارہے ہیں ہماری معصوم بچوں کو اپنے بھائیوں کی بازیابی کے لیے پڑھنے کے بجائے ریلیوں اور دھرنوں میں مصروف رکھا جارہا ہے، بوڑھے بزرگ اور کماش زندانوں میں ڈالے جارہے ہیں اگر اس وقت ہم نام نہاد الیکشن میں جاکر ووٹ ڈالیں اور ان لوگوں کو مضبوط کریں جو ان سب غیر انسانی سلوک میں براہ راست شامل ہیں تو ہم کسی طور پر بلوچ کہنے کے لائق نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست نے ہمیں کیا دیا ہے، ایک لاش تربت کے چوک میں 14 دن احتجاج کرتی رہی ایک پارلیمنٹ پرست لیڈر اس ظلم کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا، اسلام آباد میں ہماری بچوں کے سر سے آنچل اتار کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ایک سیاسی جماعت نے ایک گھنٹے کے لیے احتجاج نہیں کیا یہ لوگ الیکشن جیت کر جب پارلیمنٹ میں جائیں گے تو ہمارے لیے ہماری زندگیاں مزید تلخ بنانے کے سوا اور کیا کریں گے، انہی لوگوں کی مدد سے پارلیمنٹ میں قانون پاس ہوں گے جہاں ایف سی کو پولیس کے اختیارات اور سی ٹی ڈی کو حراستی قتل کا اختیار دیا جائے گا اس لیے بلوچ زندہ ضمیر ہونے کا ثبوت دے کر پارلیمانی سیاست اور الیکشن کا بائیکاٹ کریں۔

احتجاجی جلسہ سے معروف عالم دین جمعیت اہلحدیث کے صوبائی رہنما مولانا عبدالغنی زامرانی، بالاچ بالی، پروفیسر مفتی سرفراز، یعقوب جوسکی کے علاوہ لاپتہ افراد کے فیملی ممبران نے بھی خطاب کیا۔

انہوں نے اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین پر پولیس گردی کی سخت مذمت کی اور پولیس کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا۔