ریاست مکالمے سے خوف زدہ ہے اس لیے منظور بلوچ کو تربت یونیورسٹی پروگرام میں شرکت سے روکا گیا۔ ڈاکٹرنسیم بلوچ

114

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس وقت قوم کو بہت زیادہ چیلنجز درپیش ہیں۔ قابض ریاست کی ترجیحات میں شامل ان چیلنجز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلوچ قوم کو درس و تدریس سے دور رکھے اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے قومی اور تنقیدی شعور کو اجاگر کرنے والے اساتذہ کی تذلیل کرئے۔
 
انھوں نے کہا قابض ریاستیں ہمیشہ مکالمے اور تنقیدی شعور سے خائف رہتے ہیں کیونکہ مکالمے اورتنقیدی شعور سماج روایتی یا قبضہ گیر کے طے کردہ ڈگرسے ہٹ کر نئے راستے اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سوچ پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام قبضہ گیر ریاستیں نہیں چاہتیں کہ اس کے طے کردہ “لکیر” کو پار کیا جائے اور نئی راہوں پر چلنے کے لیے سوچ پیدا کیاجائے۔
 
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا گذشتہ دنوں تربت یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ کو ایک پروگرام میں شرکت کرنے سے روکنا ریاست کے مکالمے سے خوف کو عیاں کرتا ہے۔ پروفیسر منظور بلوچ ایک استاد اور تنقیدی شعور کے علمبردار ہیں جو اپنے طلبا اور اکیڈمک مباحث میں تنقیدی شعورکو اجاگرکرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تربت یونیورسٹی میں بھی ان کے پروگرام یہی مقصد تھا۔ لیکن ریاستی اداروں کے سامنے سرخم تسلیم کرکے تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بلوچ پروفیسر اور اپنے مہمان کو پروگرام میں شرکت سے روک کر بلوچ اقدار اورعلمی روایات کی پائمالی کی۔ وہ اپنے اس عمل سے اپنے ہم پیشہ اور تدریس سے وابستہ استاد کی عزت وتکریم میں ناکام رہے۔

انھوں نے کہا اگر ہم عالمی قوانین دیکھیں تو اقوام متحدہ کے 1976ء کے اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی حقوق کے حوالے سے آرٹیکل 13’’ تعلیم کے حق ‘‘ کا دفاع کرتا ہے ۔ اس شق کی رو سے ’’ تعلیم سے وابستہ افراد ، انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر ، تحقیق ، تدریس ، مطالعہ ، بحث و مباحثہ، دستاویزات، پیداوار ، تخلیق یا تحریر کے ذریعے علم اور نظریات کو آگے بڑھانے ، تیار کرنے اور منتقل کرنے کے لیے آزاد ہیں ۔ تعلیمی آزادی میں افراد کی آزادی شامل ہے کہ وہ اس مد میں ریاستی جبر و خوف کے بغیر وہ آزادنہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔‘ پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ چونکہ اسکالر ہیں اور اسکالرز کی تعلیمات کی بدولت سماج میں شعور پروان چڑھتا ہے۔ لہٰذا یہ ان کا قانونی حق ہے کہ وہ اپنی علمی بصیرت کی بنیاد پر مسائل کی چھان بین اور ان پر بحث و مباحثہ کرے، اور حقائق لوگوں کے سامنے لائے لیکن نوآبادیاتی سماج خانوں پہ بٹی ہوتی ہے اور اس میں فقط آقا ہر بات پہ خود کو قادر سمجھتی ہے ۔ ایسے میں استحصال کا شکار مقامی افراد پہ تعلیم جیسی بنیاد ی انسانی سہولت کے در بھی بند کیے جاتے ہیں اور جو بھی اس کام کو سرانجام دینے کی کوشش کرے تو اسے تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ یہ سب اسی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس سماج میں برائیوں میں ملوث ارکان کو سماج کی مہار تھمایا جا رہا ہے تاکہ معاشرے کو مزید پستی کے دلدل میں دھکیلا جاسکے۔

 ڈاکٹر نسیم نے کہا کہ صرف ڈاکٹر منظوربلوچ کا واقعہ نہیں بلکہ ریاست مدتوں سے بلوچستان میں قومی نسل کشی کے علاوہ ثقافتی نسل کشی ،تعلیمی نسل کشی کے پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ قابض ریاست کا تمام  افعال عالمی اور انسانی اقدار اور اصولوں کے منافی ہےکہ جہاں وہ کتب میلوں پہ پابندی لگائے اور اسکالرز کو طلبا کے ساتھ مکالمہ سے باز رکھے۔ جیسے گذشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان اور تربت یونیورسٹیوں میں کتب میلوں پہ پابندی لگایا ، اسکول اورکالج و یونیورسٹی تعلیمی کم فوجی کیمپ اورچھاؤنیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ بلوچستان میں سینکڑوں اسکول و کالج عملا فوجی کیمپ میں تبدیل ہوکر سالوں سے تعلیمی مقاصد کے لیے بند ہیں ۔

 انھوں نے مزید کہا کہ علم چونکہ انسانی شعور کی کنجی ہے جس سے فرسودہ روایات اور نظریات کی بیخ کنی ہوتی ہے، اسی لیے نوآبادیاتی طاقتوں نے ہمہ وقت علم کی راہیں مسدود کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ بات بلوچستان کی ہو تو قابض کی یہ پالیسی ہم روز اول سے دیکھ رہے ہیں لیکن آج سوشل میڈیا کے توسط سے اس کی آواز ہمہ وقت دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ جیسے طلباء کی پروفائلنگ، خفیہ کیمروں سے ان کی نگرانی ، کتب پہ پابندی، طلبا اور استاذہ کی جبری گمشدگیاں اور شہادت وغیرہ سب ریاست کی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ کسی نہ کسی صورت بلوچ قوم کے لیے درس و تدریس کے در بند کیے جائیں۔