بلوچ قومی تحریک بلوچ شہداء کی قربانیوں کی بدولت برقرار ہے۔ بی این ایم

289

بلوچ نیشنل موومنٹ کے جاری کردہ بیان کے مطابق تربت میں ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی رہنماؤں نے کہاکہ 13 نومبر سن 1839 تاریخ کا وہ سانحہ ہے کہ اس دن انگریز سامراج نے بلوچ سرزمین پر حملہ کیا۔اس سے قبل بلوچستان آزاد تھا اور بلوچ قوم خودمختار تھی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بی این ایم کے شہید سلیمان آرگنائزنگ باڈی تربت میں ریفرنس یوم بلوچ شہداء کی مناسبت سے رکھی گئی ہے۔

ریفرنس میں بی این ایم تربت کے مختلف یونٹس کے ممبران نے بھی شرکت کی۔ بی این ایم کے ممبران نے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے کردار کو بلوچ قومی تحریک کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔

پروگرام میں 13 نومبر کے تاریخی پس منظر ، انگریزوں کے بلوچ سرزمین پر قبضے کے وسیع اثرات پر بات کی گئی۔مقررین نے کہا انگریز سامراج بلوچ سرزمین قبضہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ ان کے مفاد میں نہیں تھا کہ وہ بلوچستان پر قبضہ کریں بلکہ ان کے تزیرواتی مفادات بلوچ سرزمین سے وابستہ تھے۔ اس لیے انھوں نے خان بلوچ سے مطالبہ کیا کہ وہ انگریزوں بولان پاس سے گزرنے دیں تاکہ وہ یہاں سے محفوظ طریقے سے گزر کر افغانستان پر حملہ کرسکیں۔ لیکن مزاحمت کی علامت خان بلوچ نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ بلوچ سرزمین ان کے ہمسایے کے خلاف استعمال ہو۔ اپنی قومی خودمختار اور وقار کے لیے خان بلوچ انگریزوں کے مقابل آگئے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑائی میں شہید ہوئے۔

انھوں نے کہا بلوچ نے ہر زمانے میں سامراجی قوتوں کے سامنے نے مزاحمت کی ہے اور اب تک ان کے مفادات کے سامنے رکاوٹ ہیں۔ انگریز کے زمانے سے لے کر پاکستان جیسے مصنوعی ریاست کے قبضے کے زمانے تک بلوچ اپنی بقاء اور قومی خودمختاری کے لیے مزاحمت کر رہی ہے۔ باعزت و باوقار قومی زندگی کے لیے شہید ہونے والے بلوچوں کی لمبی فہرست ہے۔ یہ دن صرف بلوچ شہداء کو یاد کرنے کا دن نہیں بلکہ ان کے نظریات ، مقصد اور افکار کو آگے بڑھانے کے لیے عہد کا بھی دن ہے۔ یہ دن بلوچ فرزندوں کو قومی وقار و شان کے لیے مزاحمت کی ترغیب دیتا ہے۔یہ دن آزادی کے لیے مزاحمت پر یقن کو مستحکم کرتا ہے۔ اگر آج بلوچ قومی تحریک برقرار ہے تو اس کا سب سے بڑا سب بلوچ شہداء کے خون اور باوقار سروں کی قربانی ہے۔ جیسا عظیم شاعر جناب مبارک قاضی کا کہنا ہے :’ خون کا یہ سیلاب تمام پلید اور گندگیوں بہا کر لے جائے گا۔