اسرائیل کا غزہ کے اسکول پر حملہ، امریکی وزیرِ خارجہ کی عرب سفارت کاروں سے بات چیت

129
فائل

اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر کے ایک اسکول پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ اسکول پر یہ حملہ غزہ میں تقریباً ایک ماہ سے جاری جنگ میں ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن ہفتے کو اردن کے دارالحکومت عمان میں عرب ملکوں کے اعلیٰ سفارت کاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ ک نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ کے الشفا اسپتال کے مطابق اسکول پر اسرائیل کے فضائی حملے میں پندرہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ اس اسکول میں لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔

عینی شاہدین کا بتانا ہے کہ فضائی حملہ جبالیہ میں الفخورہ اسکول میں ہوا جہاں ہزاروں پناہ گزین موجود تھے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے فلسطینی مہاجرین کی ڈائریکٹر کمیونی کیشن جولیتے توما نے تصدیق کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے اسکول کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں لیکن فوری طور پر ہلاکتوں کی کل تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔

دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے اسکول کو نشانہ بنانے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار بلنکن اسرائیل کے دورے کے بعد عمان پہنچے ہیں جہاں انہوں نے لبنان کے قائم مقام وزیر اعظم نجیب میکاتی سے ملاقات کی۔

بلنکن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور قطر کے وزرائے خارجہ اور فلسطین کی آزادی کی تنظیم، پی ایل او، کے سیکریٹری جنرل سے بات چیت کر رہے ہیں۔

ان کی ملاقاتوں کا مقصد غزہ میں انسانی بحران اور اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس میں جنگ کا خاتمے کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔

اردن پہنچنے سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ نے تل ابیب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سمیت اسرائیل کی جنگی کابینہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے اسرائیل پر غزہ میں جاری جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفہ کرنے پر زور دیا تاکہ محصور علاقے کے لوگوں کو امداد پہنچائی جا سکے۔

بلنکن نے جمعے کو کہا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے تقریباً ایک ماہ سے جاری رہنے والے تنازع کو بڑھنے اور پھیلنے سے روکنا اولین ترجیح ہے۔

فائل فوٹو

ملاقات کے بعد بلنکن نے نامہ نگاروں کے لیے ان اقدامات کا خاکہ پیش کیا جن کے بارے میں ان کے بقول سات اکتوبر کو حماس جیسا حملہ دوبارہ کبھی نہ ہونے اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے “بہتر کل” کو یقینی بنانے کے لیےاقدامات شامل تھے۔

تل ابیب میں انہوں نے کہا تھا “ہم واضح کر چکے ہیں کہ جب اسرائیل حماس کو شکست دینے کے لیے اپنی مہم چلاتا ہے تو وہ اسے کیسے چلاتا ہے یہ اہم ہے۔ یہ اس لیے اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ ایسا کرنا درست اور جائز ہے۔ یہ اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے میں ناکامی حماس اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں کھیل بن جاتی ہے۔”

بلنکن نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق “اور ذمہ داری” کے پیچھے کھڑا ہے، لیکن انہوں نے اسرائیل سے فوجی کارروائیوں کو روکنے اور غزہ میں مزید انسانی امداد کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی شہریوں کا تحفظ ان کے دورے کی دوسری ترجیح ہے۔

اس کے جواب میں نیتن یاہو نے کہا کہ “ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ ( غزہ میں حماس کے خلاف عسکری کارروائیاں) جاری رکھے ہوئے ہیں، اور اسرائیل ایک ایسی عارضی جنگ بندی سے انکار کر رہا ہے جس میں ہمارے یرغمالیوں کی رہائی شامل نہیں ہے۔”

خیال رہے کہ حماس نے، جسے امریکہ نے دہشت گرد گروپ قرار دیا ہوا ہے، سات اکتوبر کے حملے میں 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنایا تھا جب کہ 1400 افراد کو ہلاک کیا تھا جس میں اسرائیلی حکومت کے مطابق زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس کے سات اکتوبر کے دہشت گرد حملے کے جواب میں اسرائیلی فضائی حملوں سے لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 9,250 ہو گئی ہے۔

ضرورت مند لوگوں کے لیے امداد کے حوالے سے بلنکن نے کہا کہ اب روزانہ 100 ٹرک مصر سے رفح بارڈر کراسنگ کے ذریعے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں، لیکن یہ امداد ابھی تک کافی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں “کافی اور فوری طور پر” امداد بڑھانے کی ضرورت ہے جب کہ امریکی شہریوں اور دیگر غیر ملکی شہریوں کو غزہ سے نکالنا ان کی تیسری ترجیح ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس علاقے میں بڑھتی ہوئی امداد کو فعال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

بلنکن سے لبنان کے حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی جمعے کو کی گئی تقریر کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔

حسن نصراللہ نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور جنگ میں داخل ہونے کے ارادے کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت میں حزب اللہ پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ راکٹ اور توپ خانے کے کئی ہفتوں کے تبادلے کے ساتھ جنگ میں داخل ہو چکی ہے۔

بلنکن نے کہا، “لبنان، حزب اللہ اور ایران کے حوالے سے،ہم شروع سے ہی بالکل واضح رہے ہیں کہ ہم پرعزم ہیں کہ اس تنازع میں کوئی دوسرا یا تیسرا محاذ نہیں کھولا جائے گا۔”