چین، بھارت سرحدی تنازع برقرار

133
File Photo

چین اور بھارت کے درمیان 2020 میں مہلک تصادم کا باعث بننے والے سرحدی تنازع کو حل کرنے کی سفارتی کوششوں میں اب تک بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ اس اثنا میں چین اور کچھ حد تک بھارت اپنے اپنے دعووں کو تقویت دینے کے لیے فوجی انفرااسٹرکچر کی تعمیرمیں آگے بڑھ رہے ہیں۔

رواں سال اپریل میں گزشتہ چھ ماہ کی جمع کی گئی سیٹیلائٹ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)کے ساتھ چین نے اپنی حدود میں بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر بنا لیا ہے۔

یہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول اکسائی چن کے ہمالیہ پہاڑوں میں واقع متنازع علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان “ڈی فیکٹو” بارڈر کے طور پر کام کرتی ہے۔

برطانوی تحقیقاتی ادارے چیٹم ہاؤس کے مطابق ایل اے سی سرحد میں پہلے چین کی طرف صرف بکھری ہوئی چوکیاں اور بنیادی فوجی پوزیشنیں دیکھی جاتی تھیں لیکن اب بیجنگ نے وہاں “سڑکوں، چوکیوں کو پھیلایا ہے اور جدید موسم سے محفوظ کیمپس بنائے ہیں جو پارکنگ ایریاز، سولر پینلز اور ہیلی پیڈز جیسی سہولیات سے لیس ہیں۔”

دوسری جانب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مقام لیہہ سےصحافی بلال حسین کی رپورٹ کے مطابق، بھارت نے چین کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے مسابقت رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ تاہم بھارت کی طرف ترقی کی رفتار بہت سست رہی ہے۔

اس صورت حال میں لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل میں سرحدی حلقے کی نمائندگی کرنے والے کونچوک اسٹینزین بھارتی فوج کی نمایاں تعیناتی کے ساتھ ساتھ بڑی ترقی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے لداخ کے بھارتی علاقے کے سب سے بڑے شہر لیہہ میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کے مقابلے میں بھارتی انفرااسٹرکچر کے قیام میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے اور سرحدی علاقوں میں مواصلات کا اب بھی فقدان ہے۔

بھارت لداخ اکسائی چن کو اپنے علاقے کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ بیجنگ اس دعوے کو متنازع قرار دیتا ہے اور زیادہ تر علاقے کو تبت اور اپنے مغربی سنکیانگ صوبے کے حصے کے طور پر اس کے انتظامی امور چلاتا ہے۔

اگرچہ اونچائی اور خشک حالات کی وجہ سے یہ علاقہ کافی حد تک غیر آباد ہے لیکن یہ ان دو خطوں کے درمیان اسٹرٹیجک طور پر اہم لنک فراہم کرتا ہے۔

وادی گلوان بھی اسی خطے میں شامل ہے جہاں جون 2020 میں ایک جھڑپ کے دوران 20 بھارتی فوجی اور کم از کم چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سے تین سال تک جاری رہنے والی بات چیت کے نتیجے میں کشیدگی کے پانچ مقامات پر فوجی دست برداری ہوئی ہے لیکن سرحدی تنازع حل نہیں ہوا ہے۔

دونوں ایٹمی طاقتوں کے حامل ملکوں کے درمیان تصادم کے بڑھتے ہوئے بحران کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

نئی دہلی نے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ ایک پائیدار حل کے ذریعے ہی سرحد پر چوکیوں سے فوجیوں کی تعداد کو ختم کرنا یا کم کرنا ممکن ہوگا۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین نے وی او اے کو بتایا کہ گلوان تصادم نے بھارت اور چین کے تعلقات کو 1962 کی جنگ کے بعد اپنی نچلی سطح پر پہنچا دیا تھا اور دونوں ملک اب تین سال بعد بھی تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کوگل مین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت مضبوط ہے اور وہ اب بھی کثیر الجہتی سطح پر تعاون کرتے ہیں۔ لیکن دوطرفہ وسیع تر تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ “گلوان جھڑپ نے دونوں کے درمیان گہری ہوتی ہوئی اسٹرٹیجک دشمنی کو بھی فروغ دیا، خاص طور پر چین نے بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری اور بحر ہند میں چینی بحریہ کی موجودگی کے ذریعے بھارت کے وسیع تر علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔”

سال 2020 کی موسم گرما کی گلوان جھڑپوں کے بعد، دونوں ملکوں کے کور کمانڈرز کی سطح پر میٹنگوں کے متعدد دور ہوئے، جس کے نتیجے میں فورسز کا جزوی انخلاء ممکن ہوا۔ ان ملاقاتوں سے فوجی بفر زونز کا قیام عمل میں آیا جس نے مؤثر طریقے سے مزید کشیدگی کو روکا۔

تاہم اب بھی فوجیوں کی ایک خاصی تعداد سرحد کے قریب تعینات ہے اور بات چیت کے تازہ ترین دور میں اہم پیش رفت نہیں ہوئی۔

اس ضمن بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں کہا تھا، “سرحد کی حالت (بھارت اور چین کے درمیان) تعلقات کی حالت کا تعین کرے گی اور سرحد کی حالت آج بھی غیر معمولی ہے۔”

ماہرین کی نظر میں چین بھارت تعلقات میں جلد بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔ ان کے مطابق ایسا خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے گزشتہ ماہ واشنگٹن کے سرکاری دورے کے بعد دکھائی دیتا ہے کیوں کہ بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدر جو بائیڈن نے اس دورے میں دفاع، ٹیکنالوجی اور فوجی معاملات پر معاہدے کیے تھے۔

اس سلسلے میں بھارتی فوج کے ایک سابق افسر، دفاعی ماہر اور مصنف پراوین ساہنی نے کہا، “میں اس وقت تک بھارت اور چین کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کی پیش گوئی نہیں کرتا جب تک کہ مودی اقتدار میں رہیں گے۔”

انہوں نے وائس آف امریکہ کو ایک ٹیکسٹ میسیج میں لکھا کہ بھارت اور امریکہ کے معاہدے اس وقت سے ممکن ہوئے جب دہلی اور واشنگٹن دونوں چین کو بالترتیب علاقائی اور عالمی سطح پر اپنا مشترکہ خطرہ سمجھتے ہیں۔”

واشنگٹن میں کام کرنے والے ماہر کوگل مین یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت اور چین کے تعلقات کھلے عام اس طرح کے عداوتی نہیں ہیں جیسے بھارت اور پاکستان کے درمیان ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ بنیادی اختلافات ہیں جن کا حل کرنا مشکل ہوگا۔

انہوں نے کہا، “بالآخر، سب کچھ سرحدی تنازع پر آتا ہے۔ جب تک اس پر توجہ نہیں دی جاتی، تعلقات کے دیگر پہلوؤں کو بہتر بنانے کے لیے خیر سگالی اور اعتماد سازی کرنا مشکل ہو گا۔”