پاکستان: کشمیری عسکریت پسندوں کے ہلاکت میں ملوث رینجرز اہلکار گرفتار

393

پاکستان میں موجود انڈین مخالف کشمیری عسکریت پسندوں کو قتل کے الزام میں ایک رینجرز اہلکار کو حراست میں لئے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

پاکستانی میڈیا سے منسلک نمائندوں کے مطابق پاکستان کی خفیہ اداروں نے حزب المجاہدین کے خالد رضا اور البدر مجاہدین کے زاہد ابراہیم سمیت پاکستان میں ہندوستان مخالف کشمیری عسکریت پسند کمانڈروں کے قتل میں ملوث نیٹورک کا سُراخ لگانے کا دعویٰ کیا ہے-

پاکستانی صحافی انس ملک نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے ان واقعات میں ملوث نیٹ ورک کے ایک اہم رکن کو گرفتار کرلیا ہے جس کی شناخت کو تو ظاہر نہیں کی گئی ہے تاہم حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار نیٹورک کا کمانڈر پاکستانی رینجرز کا ریٹائرڈ کمانڈو ہے-

رواں سال کراچی سمیت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں متعدد کشمیری عسکریت پسند رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا جن میں نمایاں کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم تھے جنھیں رواں سال فروری میں اسلام آباد کے برما ٹاؤن میں ’نامعلوم موٹر سائیکل سواروں‘ نے انتہائی قریب سے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

اس واقعے کے پانچ روز بعد کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین افواج کے خلاف 90 کی دہائی میں البدر مجاہدین نامی تنظیم کے سرکردہ رہنما سید خالد رضا کو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا-

سید رضاء خالد کے قتل کی ذمہ داری سندھی آزادی پسند مسلح تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی نے قبول کی تھی تاہم پاکستان ان کاروائیوں کو کا الزام ہندوستان پر لگاتا رہا ہے-

سال 2022 اور سال 2023 میں پاکستان میں متعدد ایسے افراد قتل ہوئے جن میں مشترکہ یہ تھا کہ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے جبکہ انڈین افواج کے خلاف مسلح کاروائیوں میں ملوث تھیں-

اس سے ایک سال قبل مارچ 2022 میں کراچی کے علاقے اختر کالونی میں ’جہادی تنظیم‘ جیش محمد کے رکن مستری زاہد ابراہیم کا قتل ہوا تھا۔ دو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ان کو فرنیچر سٹور میں نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔

مستری زاہد ابراہیم دسمبر 1999 میں نیپال سے ایک انڈین مسافر ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ میں ملوث تھے جو قندھار لے جایا گیا تھا۔

دسمبر 2021 میں پاکستانی کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی اداروں کے رپورٹ کے مطابق اس حملے میں انڈیا ملوث تھا۔

حنا ربانی کھر نے اس واقعہ کے ردعمل میں اقوام متحدہ سے انڈیا کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی تھی تاہم انڈین حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

خیال رہے کہ مارچ 2022 میں انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز سمیت متعدد خبر رساں ویب سائٹس اور چینلز نے زاہد ابراہیم مستری کے قتل کو دسمبر 1999 میں بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ میں مارے گئے بھارتی باشندہ روپین کٹیال کا انتقام اور اس کے اہلخانہ کو دو دہائی کے بعد انصاف قرار دیا تھا۔