’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ کون ہیں؟

320

انڈیا کی ریاست پنجاب میں پولیس نے گذشتہ سنیچر کو سکیورٹی فورسز کی مدد سے خالصتان حامی اُبھرتے ہوئے خودساختہ سکھ مبلغ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں کر رکھی تھیں۔

پولیس نے ان کے کئی قریبی ساتھیوں کو گرفت میں لے لیا تھا لیکن امرت پال سنگھ پولیس کو چکما دے کر نکل گئے۔

دوسری جانب اُن کے گھر والوں کو اندیشہ ہے کہ پولیس نے انھیں بھی گرفتار کر لیا ہے لیکن اُن کی گرفتاری کو ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے مقامی عدالت میں حبس بے جا کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل سکھ چین سنگھ نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اس کارروائی کے دوران اب تک ’وارث پنجاب دے‘ نامی تنظیم کے 114 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے، چھ مختلف ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور دس ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔‘

آئی جی سکھ چین نے مزید بتایا کہ ’امرت پال سنگھ ابھی مفرور ہیں اور انھیں پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔‘

یاد رہے کہ 29 سالہ امرت پال سنگھ نے گذشتہ 23 فروری کو اپنے ایک ساتھی کو پولیس کی حراست سے چھڑانے کے لیے امرتسر کے نزدیکی قصبے اجنالہ میں اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ پولیس سٹیشن پر یلغار کر دی تھی۔

انھوں نے سکھوں کی مقدس مذہبی کتاب ’گروگرنتھ‘ صاحب کو شیلڈ بنا رکھا تھا۔ پولیس نے مقدس کتاب کی بے حرمتی کے خدشے کے پیش نظر امرت پال اور ان کے حامیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور ان کے زیر حراست ساتھی کو بھی رہا کر دیا تھا۔

امرت پال سنگھ کون ہیں؟

امرت پال سنگھ ایک کم گو 29 سالہ نوجوان ہیں جن کی پیدائش امرتسر ضلع کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔

سنہ 2012 میں وہ اپنے والدین کے ٹرانسپورٹ بزنس مییں ہاتھ بٹانے کے لیے دبئی منتقل ہو گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر وہ اپنے پیغامات میں سکھوں کے اتحاد اور علیحدہ ریاست کی باتیں کرتے ہیں جن کے باعث انھیں مقبولیت حاصل ہونے لگی۔

کئی برس دبئی رہنے کے بعد وہ گذشتہ برس اگست میں کسانوں کی تحریک کے دوران انڈیا آئے۔

اس وقت ان کی داڑھی ترشی ہوئی تھی اور سر کے بال کٹے ہوئے تھے۔ ایک مہینے بعد اداکار اور سماجی کارکن دیپ سدھو کی ایک کار حادثے میں موت کے بعد قائم کی گئی تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ کا انھیں سربراہ منتخب کیا گیا۔

یہ تقریب 1980 کے اوائل میں خالصتان تحریک کے بانی جرنیل سنگھ بھنڈرا والے کے گاؤں میں منعقد کی گئی۔ یاد رہے کہ جرنیل سنگھ بھنڈرا خالصتان کے زبردست حامی تھے اور ان کی موت گولڈن ٹیمپل میں متنازع آپریشن بلیو سٹار کے دوران ہوئی تھی۔

امرت پال جرنیل سنگھ بھنڈرا کو اپنی ترغیب کا محور قرار دیتے ہیں۔ وہ بارہا اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ سکھوں کی ایک علیحدہ مملکت ہونی چاہیے۔

انھوں نے نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ’اگر آر ایس ایس اور ہندو رہنما انڈیا میں ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتے ہیں تو سکھ خالصتان کی تمنا کیوں نہیں کر سکتے؟‘

ان کی داڑھی اب مذہبی سکھوں کی طرح بڑھی ہوئی ہے۔ وہ اب پگڑی پہنتے ہیں اور مذہبی کرپان لٹکا کر چلتے ہیں۔ وہ لباس اور اپنے انداز میں علیحدگی پسند بھنڈرا والے کی تقلید کرتے ہیں اور جگہ جگہ جا کر تقاریر کرتے ہیں۔

پنجاب میں ان کی مقبولیت میں اضافے کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ مہینوں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن پنجاب کی سیاست اور پیچیدہ صورتحال میں ایک نوجوان ریڈیکل سکھ رہنما کے اچانک نمودار ہونے کے بارے میں کئی لوگ شک کا اظہار کرتے ہیں۔

انڈیا میں انگریزی جریدے ’کیریوان‘ کے مدیر ہرتوش سنگھ بل نے دعویٰ کیا کہ ’امرت پال کے آنے سے مرکز خوش ہے، ایجنسیاں خوش ہیں، بی جے پی خوش ہے۔ یہ تو عام آدمی پارٹی کی ریاستی حکومت ہے جو اپنی نا تجربہ کاری سے یہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ ممکنہ طور پر امرت پال آیا نہیں بلکہ لایا گیا ہے۔‘

امرت پال سنگھ اپنے بیانات کے سبب تنازعات میں گھرے رہتے ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ پانی کا تنازع ہو، منشیات کی لت کا مسئلہ ہو یا پنجابی کلچر کے زوال کا سوال ہو، پنجاب کے مسئلے کا دائمی حل سکھوں کی ایک علیحدہ مملکت کا قیام ہے۔

وہ اپنے بیانات کے لیے ہی نہیں، دبئی سے ان کی وابستگی کے سبب بھی سوشل میڈیا پر اکثر توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔

وہ ایک مہنگے ماڈل کی مرسیڈیز میں سفر کرتے تھے اور ان کے ہمراہ کئی مسلح کارکن ان کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔

ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ امرت پال سنگھ اپنے متنازع بیانات سے پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچ رہا ہے۔

انڈیا کی خفیہ ایجنسیاں کئی مہینے سے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ امرت پال کی گرفتاری کے لیے گذشتہ 15 دنوں سے تیاریاں چل رہی تھیں۔

امرت پال کو سنیچر کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے جاتے وقت راستے میں گرفتار کیا جانا تھا۔ اس کارروائی میں سینکڑوں پولیس افسر اور مرکزی فورسز کے اہلکار شامل تھے۔ اس کے باوجود پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے سبھی اعلیٰ مشیروں اور کئی قریبی رشتے داروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد اتوار کو خالصتان کے حامیوں نے احتجاج میں لندن میں واقع انڈیا کے ہائی کمیشن کی بالکونی میں ٹنگے ہوۓ انڈیا کے پرچم کو اتار دیا اور وہاں خالصتان کا پرچم لہرانے کی کوشش کی۔

خالصتان کے حامیوں نے امریکہ میں سین فرانسسکو میں واقع انڈیا کے قونصل خانے کے باہر بھی ہنگامہ آرائی کی۔

انڈیا نے انگلینڈ اور امریکہ کی حکومتوں سے ان واقعات کے لیے شدید احتجاج کیا ہے۔