سو سالہ بلوچ سیاسی تاریخ کے کچھ اوراق – کمبر بلوچ

1145

سو سالہ بلوچ سیاسی تاریخ کے کچھ اوراق

تحریر: کمبر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جب بلوچ سیاست کی پہلی اینٹ عبد العزیز کرد نے رکھی اسُ وقت انگریز کے خلاف آخری مسلح بغاوت (مری – کھتران) ختم ہو چکی تھی۔

بلوچ قوم نے ہر دور میں بیرونی یلغار کے سامنے مزاحمت کوعصرِ حاضر کا فرض سمجھا اور مزاحمت کا بیرک بلند رکھا، مہر گڑھ سے لیکر فرنگیوں تک اور انگریزوں سے عصر حاضر تک ہمیشہ مزاحمت کے تسلسل کو زندہ رکھا اور آج بھی سرزمین کی محبت میں دشمن سے برسرِ پیکار ہو کر مٹی کا حق ادا کر رہے ہیں ۔

بیسویں صدی کی اولین دہائی تک قبضہ گیروں کیخلاف سیاسی مزاحمت کے فقدان اور سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی قبضے ہمیشہ طول پکڑتے رہے۔ شایداسلاف کی یہی سیاسی ناپختگی ہی تھی جسکی وجہ سے بلوچ قوم آج بھی استعمار کے زیرِ قبضہ ہے۔

بیسویں صدی کی دوسرے دہائی کے آخری سال ( 1920 ) عبدالعزیز کُرد اوراُس کے طالبعلم ساتھیوں نے  ” ینگ بلوچ ”کے نام سے ایک طلبا تنظیم کی بُنیاد رکھی جو بلوچ سیاسی تاریخ کے ارتقا کا بنیاد بنا، نو سال کی روپوشی کے بعد 1929 کو یوسف عزیز مگسی کی قیادت میں “انجمن اتحاد بلوچاں ”کی شکل میں ایک منظم پارٹی ڈھانچہ اختیارکرنے میں کامیاب ہوئی۔

انجمن اتحاد بلوچاں کیجانب سے جیکب آباد میں پہلی آل انڈیا بلوچ کانفرنس منعقد کی گئی جس کی صدارت خیرپور کے میر علی نواز خان تالپور نے کی جو 27 دسمبر1932کو شروع ہو کر 29دسمبر1932 ختم ہوا۔ انجمن کا مقصد بلوچ قوم کو یکجاہ کرنا اور اُن کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے مندرجہ ذیل نکات کو بطورِمطالبہ پیش کیا گیا۔

۱۔ ایف سی آر کا خاتمہ
۲۔ بلوچستان میں ایک عبوری اور آئینی حکومت کی تشکیل
۳۔ بلوچستان میں صنعتوں کا قیام
۴۔ بلوچستان میں اعلی تعلیم کے لیے اداروں کا قیام
۵۔ بلوچوں کو متحد کرنے کے لیے بلوچستان کے مختلف حصوں کو یکجا کرنا۔

دسمبر 1933 کو منعقدہ دوسری آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں گزشتہ مطالبات کی حمایت کیساتھ اِس بات پر زور دی گئی کہ بلوچستان میں ایک قانونی اور آئینی حکومت ہنگامی بنیادوں پر تشکیل دی جائے ۔

جنوری 1934 کو انجمن اتحاد بلوچاں کے جنرل سیکرٹری عبدالعزیز کرد کوگرفتار کیا گیا اورسخت حالات کی وجہ سے یوسف عزیز مگسی ایک سال تک برطانیہ  میں جلاوطن ہوئے اور واپس وطن لوٹنے کے بعد یوسف عزیز مگسی نے آزادی کے لئے مسلح جدوجہدکی حمایت شروع کر دی اور اِس سلسلے میں تگ ودو جاری رکھا۔

1935ء کو کوئٹہ میں ہونے والے زلزلے میں ناگہانی وفات سےپہلے یوسف عزیز مگسی انجمن کو انقلابی بنیادوں پر استوار کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل تھے۔

یوسف عزیز مگسی کی وفات اور عبدالعزیز کرد کا جیل میں ہونے کی وجہ سے انجمن اپنی منظم ساخت کھو بیٹھا اور تنظیم پرشت وپروش کا شکار ہوا۔ عبدلعزیز کرد نے رہائی کے بعد انجمن کو دوبارہ سے منظم کرنے کی کوشش شروع کی اور 5 فروری 1937ء میں تنظیم کا مرکزی اجلاس منعقد کر کےانجمن اتحاد بلوچاں کو ختم کرکے قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔

قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے بلوچستان پر برطانوی راج کے قبضے کیساتھ سرداری نظام کیخلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیااور اصلاحات کیلیے عملی اقدامات اٹھائے ۔ پارٹی نے تنظیمی ساخت کو مضبوط کرنےاور پروگرام کو بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے جدوجہد شروع کی اور بلوچ قومی نظریے کو پروان چڑھانےکی بنا پر نیشنل پارٹی کو بلوچ عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی۔

برطانوی حکام  کی آشیر باد اور اپنی قبائلی بقا کو قائم رکھنے کیلیے سردار اور خان قلات مجموعی شکل میں قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کیخلاف ہو گئے اور 6جولائی 1939 ء کو مستونگ میں پارٹی کے سالانہ اجلاس پر سرداروں نے حملہ کر کے اجلاس کو درہم برہم کر دیا۔ خان آف قلات میر احمد یار خان نے سرداروں اور برٹش حکام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے 20 جولائی 1939 ء کوقلات سٹیٹ نیشنل پارٹی پر پابندی عائد کر دی۔ پارٹی صدر ملک عبدالرحیم خواجہ خیل ، غوث بخش بزنجو ، گل خان نصیر ، عبدالکریم شورش اور درجنوں کارکنان کو جلاوطن کیا گیا۔ قلات میں پارٹی اور اُس کی سرگرمیوں پر پابندی کیوجہ سے پارٹی نے اپنا ہیڈ کوارٹر شال(کوئٹہ)منتقل کیا اور وہاں سے اپنی سرگرمیاں برقرار رکھیں۔

جنگ عظیم دوئم ( 1939 – 1945 ) کے وقت انڈین ڈیفنس ایکٹ کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی ، اس دوران قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے زیرزمین سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی اور پارٹی عہدیداروں نے جواہر لال نہرو سے قلات گورنمنٹ کیجانب سے پارٹی پر پابندی کیخلاف آواز اٹھانے کی استدعا کی۔ نہرو نے پارٹی کو کانگریس میں ضم ہونے کے شرط پر پارٹی عہدیداروں کو حمایت کا یقین دلایا، پارٹی نے 1944ء کے اواخر میں ”آل انڈیا سٹیٹ پیپل کانگریس”میں شمولیت اختیار کی جسے بعد میں عوامی مخالفت کی بنیاد پر ترک کر کے دوبارہ سے پارٹی کی گزشتہ حیثیت برقرار رکھی جو کہ بلوچستان کے آزادی تک برقرار رہی۔

برطانوی راج کی قبضہ گیر عہد کے اختتام پر بلوچستان ایک آزاد ملک کے طور پر دُنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اور دو آئینی اسمبلیاں ایوان بالا اور ایوان زیریں ترتیب دی گئی۔ بلوچستان میں ایوان زیریں کے لئے عام انتخابات میں قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے مجموعی طور پر52میں سے 39 نشستیں جیت کر اکثریت حاصل کی اور غوث بخش بزنجو ایوان کے قائد منتخب ہوئے۔ یہ آزادی دیرپہ نہ رہی اور مارچ 1948 کو پاکستان نے بلوچستان پر جبری الحاق کیا۔

آغاعبدالکریم کی قیادت میں قلات نیشنل پارٹی کے سیکرٹری ملک سعید دہوار ، کمیونسٹ پارٹی سندھ بلوچستان کے سیکرٹری قادر بخش نظامانی ، بلوچ لیگ کے سیکرٹری محمد حسین عنقا اور ساتھی پاکستان کیخلاف اولین گوریلا جنگ کی بنیاد رکھنے افغانستان چلے گئے۔ افغانستان ، سویت یونین اور بلوچ قبائل کیطرف سےامداد نہ ملنے کی وجہ سے بلوچ قیادت جنگ کے تسلسل کو جاری نہ رکھ سکے اور عہد نامے اور معاہدات کرکے افغانستان سے واپس ہوئے۔

آغا عبدالکریم اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ وعدہ خلافی کرکے قلات کے قریب اُنھیں گرفتارکیا گیا جو کئی سال جیل میں رہے اور رہائی کے بعد 14 جولائی 1955 کو آغا عبدالکریم، غوث بخش بزنجو ، محمد حسین عنقا, قادر بخش نظامانی اور قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے ساتھیوں نے ”اُستمان گل”کے نام سےسیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی ، آغا صدر اور عنقا سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور پارٹی نے ون۔یونٹ پالیسی کی مخالفت کی اور متحدہ خود مختار صوبہ بلوچستان کا مطالبہ کیا۔

اُستمان گل قبضے کے بعد پہلی منظم سیاسی قوت کے طور پر ابھری اور  بلوچ قوم میں سیاسی شعور کی بیداری اور قومی حقوق کی آگہی کے لیےاپنی جدوجہد جاری رکھی۔

2 دسمبر 1956 کو استمان گل پاکستان نیشنل پارٹی میں ضم ہوگیا جس میں جی ایم سید کی سندھ متحدہ محاذ، حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری کمیٹی، خان غفار خان کی خدائی خدمتگار تحریک اور عبدالصمد اچکزئی کی ورور پشتون شامل اور ضم ہوئیں۔1957کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)سے مولانا باشانی کی عوامی لیگ کے شامل ہونے کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی کے نام کو بدل کر نیشنل عوامی پارٹی رکھا گیا۔

نیشنل عوامی پارٹی پاکستان میں اقلیتی اقوام کے حقوق کے لیے مشترکہ جدوجہد اور ون یونٹ کے خاتمے کیخلاف موثرجدوجہد کرنے کی بنیاد بنا اور قوموں کی حقوق کیلیے ایک موثر آوازبنی رہی ۔

ساٹھ کی دہائی میں بلوچ طلبا نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنازیشن کی بنیاد رکھی جس نے بلوچ سیاست کو نئی سمت دےکر بلوچ سماج میں قومی سیاست کا توانا آواز بنا اور ہر دور میں بلوچ سیاست کے ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا۔

ساٹھ کے دہائی میں بلوچ لیڈران پاکستان کے پارلیمان میں منتخب ہوئے، مکران سے باقی بلوچ، قلات سے عطااللہ مینگل اور شال سے خیر بخش مری نے پارلیمنٹ میں بلوچ حقوق کی جہدوجہد جاری رکھی اور نیپ نے ون یونٹ اور قوموں کی حقوق کی جہدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھا جو ون یونٹ کے خاتمے پر اختتام پذیر ہوئی اور بلوچستان کو ایک صوبے کا درجہ دیا گیا۔

بلوچ رہنماؤں میں نواب خیر بخش مری، عطااللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو نے نیپ کے بینر تلے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی، نیپ بلوچستان کی واحد قومپرست پارٹی کی طور پر ابھری اور 1972 میں صوبے میں پہلی قومپرست حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ خیر بخش مری نے بطور پارٹی  کے صوبائی صدر اپنی زمہ داریاں برقرار رکھیں ، عطا للہ مینگل صوبائی وزیراعلی اورغوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان منتخب ہوئے۔ نیپ کی یہ حکومت نو ماہ قائم رہنے کے بعد بھٹو نے 1973میں نیپ حکومت کاخاتمہ کردیا اور نیپ رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔

1973 کو نیپ رہنماوں کی گرفتاری کے بعد بلوچ انسرجنسی میرہزار خان بجرانی کی قیادت میں شروع ہوئی جس میں فورتھ انٹرنیشنل سےلندن گروپ ، سندھ سے میر علی احمد تالپر کے فرزند میر محمد علی تالپر اور بی ایس او کی قیادت نے شرکت کی جو 1978 تک جاری رہی اور سخت حالات کی وجہ سے فراریوں اور بلوچ قوم نے ہزاروں کی تعداد میں افغانستان میں جلاوطنی اختیار کی۔

جولائی 1977میں جنرل ضیا الحق نے حکومت پر قبضہ کیا اور نیپ کے رہنماؤں سمیت تمام بلوچ سیاسی اسیران کو بھی رہا کردیا۔

نیپ کے رہنماؤں کی رہائی کے بعد سردار عطاللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش ہوکر بیرون ملک چلے گئے اور وہاں سے آزاد بلوچستان کی خاطر اپنی سیاسی جدجہد جاری رکھا، جب کہ غوث بخش بزنجو نے پاکستانی کنفیڈرشن میں رہتے ہوئے حقوق کے خاطر جدوجہد کا فیصلہ کیا۔

1980 کے شروع میں غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی اور تحریکِ استقلال کیساتھ مل کرصوبائی خودمختاری کے لئے جنرل ضیا الحق کو ایک یاداشت پیش کی جبکہ جنرل ضیا کے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کی وجہ سےپاکستان نیشنل پارٹی چھ ماہ سے زیادہ اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکی۔

1981 کو عطاللہ مینگل نے لندن میں ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی جس کا مقصدبلوچ ڈائسپورا کو یکجا کرنا اور بلوچ ثقافت کی ترویج کیلیےجدوجہد کرنا تھا۔ بلوچ رہنمانے ایک آزاد اور عظیم بلوچستان کیلیے جدوجہد شروع کی اور لندن سے ایک اخبار کا اجرا کیا جہاں سے آزادی کی ترویج کی گئی۔

نواب خیر بخش مری دو سال برطانیہ اور فرانس میں جلاوطن رہنے کے بعد افغانستان میں جلاوطن بلوچ قوم اور فراریوں کے پاس منتقل ہوئے ۔

1987 میں شہیدفدا احمدبلوچ اور اُس کے ساتھیوں نے  بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کا بنیاد رکھا، جس نے شروع میں پارلیمانی سیاست کی مخالفت کی لیکن 1988 کے انتخابات سے پہلے بلوچستان نیشنل موومنٹ کےنام سے ایک سیاسی پارٹی تشکیل دی، جس نے انتخابات میں حصہ لے کر اکبر خان بگٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان نیشنل الائنس تشکیل دی۔

1988کے انتخابات میں غوث بخش بزنجو کے پاکستان نیشنل پارٹی کو  شکست ہوئی اور بلوچستان نیشنل الائنس کی صوبائی حکومت کا قیام ہوا۔ نواب اکبر بگٹی صوبے کے وزیر اعلی مقرر ہوئے اور دو سال بعد پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے مرکزی حکومت کا تختہ اُلٹا اور صوبائی حکومت بھی تحلیل ہوئی۔

1990 میں بلوچستان نیشنل موومنٹ ایک طاقتور سیاسی پارٹی کے حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی لیکن جلد ہی دو دھڑوں مینگل اورحئی میں تقسیم ہوگئی۔ 1990 میں  نواب اکبر بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی بنائی۔  بی این ایم مینگل نے بلوچستان نیشنل پارٹی تشکیل دےکر بلوچستان میں اپنی سیاسی جدو جہد جاری رکھا اور بی این ایم نے ڈاکٹر  حئی کی قیادت میں سیاست جاری رکھی۔

افغانستان میں مجاہدین کے قبضےکے بعد بلوچ قوم نواب خیربخش کی قیادت میں 1993 میں واپس بلوچستان آئے اور شال میں کوہ چلتن کے دامن میں نیو کاہان کو آباد کیا ۔ نواب خیربخش مری نے حق توار سرکل شروع کی جو موجودہ بلوچ قومی تحریک کے احیاء کی بنیاد بنی ۔

سردار عطاللہ مینگل 1996میں اپنی جلاوطنی ختم کرکے بلوچستان میں دوبارہ سے پارلیمانی سیاست میں سرگرم عمل ہوئے۔1997کے انتخابات میں بی این پی نے الیکشن میں حصہ لے کر صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی اور جمہوری وطن پارٹی سے الائنس کرکے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بی این پی نے صوبائی حکومت میں وفاق کے مداخلت شکایت کی اور اسی دوران جمہوری وطن پارٹی سے بھی تعلقات خراب ہوئے ۔

28 مئی 1998کوبلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے راسکوہ میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا اوربلوچ قوم نے اس کیخلاف شدید احتجاج کیا۔ اس دوران اسٹبلشمنٹ نے بلوچستان نیشنل پارٹی میں اندرونی خلفشار کو جنم دیا اور اختر مینگل کو بطور صوبائی وزیر اعلی مستفعی ہونا پڑا اور بلوچستان نیشنل پارٹی تین حصوں بی این پی مینگل، بی این ڈی پی، بی این پی (عوامی) میں تقسیم ہو گئی۔

2002میں بلوچستان نیشنل مومنٹ کے کونسل سیشن  میں قیادت کے نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور ڈاکٹر حئی اور ڈاکٹر مالک گروپ نے  پاکستانی فیڈریشن میں رہ کر بلوچ حقوق کی جدوجہد پر زور دیا اور چیئرمین غلام محمد نے بلوچ قومی آزادی کی جہدوجہد کا عہد کیا ۔ اسی اثناء میں بی این ایم کے ڈاکٹر حئی اور ڈاکٹر مالک گروپ نے بی این ڈی پی کیساتھ ملکر نیشنل پارٹی تشکیل دی جس نے  غوث بخش بزنجو کے لائحہ عمل کو اپنا کر فیڈریشن کی سیاست شروع کی۔

چیئرمیں غلام محمد بلوچ نے آزادی پسند سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے 29 اپریل – 1 مئی 2003 کو شال میں پارٹی کا کونسل سیشن منعقد کیا، غلام محمد چیئرمین اور رحیم ایڈوکیٹ پارٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔کونسل سیشن میں پارٹی کا نام بلوچستان نیشنل موومنٹ سے تبدیل کر کے بلوچ نیشنل موومنٹ رکھا گیا اور پارٹی اساس بلوچ قومی آزادی ،غیر پارلیمانی سیاست اور مسلح جدوجہدکی حمایت پر رکھا گیا ۔

آگست 2006 میں بلوچ سیاست کا قدآور بُرج نواب آکبر خان بگٹی کی شہادت کا سانحہ ہوا اور اِس بُرج کا گرنا پارلیمانی سیاست پربھاری پڑا اور اس سانحہ نے آزادی کی جہدوجہد کو تقویت دی۔ 2008 کے انتخابات کا بلوچ جماعتوں نے بائیکاٹ کیا اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ۔ پیپلز پارٹی کے آغاز حقوق بلوچستان کے ساتھ ہی بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے آغوا کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد اُن کی لاشیں ویرانوں اور بیابانوں میں ملنا شروع ہوئیں ۔

اپریل 2009 کو بی این ایم کے قائد چیرمیں غلام محمد کو اُن کے ساتھی لالامنیر اور شیر محمد کے ساتھ جبری گمشدگی کے بعد شہید کیا گیا اور بلوچستان میں سیاسی قائدین کو قتل کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو ابتک جاری ہے۔ ہزاروں سیاسی لیڈران اور ورکروں کو شہید کیا گیا لیکن بلوچ قوم پرست پارٹیاں بلوچ قومی آزادی کی جہدوجہد سے دستبردار نہیں ہوے۔

2013 کے انتخابات کا بلوچ قوم نے وسیع پیمانے پر بائیکاٹ کرکے پارلیمانی سیاست کو مسترد کیا اور بلوچ آزادی کی جہدوجہد کے راستے کو دوام بخشا لیکن بلوچ جدوجہد سے وابستہ پارٹی اور تنظیموں کے اندرونی چپقلش نے اس جہدوجہد کو کئی محاذوں پر مشکلات کا شکار کر دیا ۔ تشدد ، مسخ شدہ لاشیں ، ڈیتھ اسکواڈز کا راج اور پارلیمانی سیاست آج بھی جاری ہیں اور آزادی کی جہدوجہد کا شمع بھی جل رہا ہے ۔

بلوچ سیاسی جہدوجہد نے سدسال کا سفر مکمل کر لیا اور یہ سفر اب بھی جاری ہے، جو سفر عبدالعزیز کرد نے ینگ بلوچ سے شروع کی اور انجمن اتحاد بلوچاں اور قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے جسے توانائی بخشی اور نیب کے قائدین نے اُس سفر کو ایک نئی جہت دیا، آج بلوچ جہدکاروں نے اس کارواں کا عَلم اٹھایا ہوا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں