کتابی چمشانک (بلوچ سماج ،آغاز،ارتقاء اور سماجی تضادات) ۔ عقیل بلوچ

343

کتابی چمشانک (بلوچ سماج ،آغاز،ارتقاء اور سماجی تضادات) 

تحریر: عقیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سماج ،آغاز،ارتقاء اور سماجی تضادات ماہر بلوچ تاریخ دان اور پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ کی تصنیف ہے- ڈاکٹر فاروق بلوچ کی یہ تخلیق کردہ کتاب دسمبر 2021 کو علم و ادب پبلشرز کراچی سے شائع کیا گیا ہے-

یہ عام بات ہے کہ ایک حقیقی دانشور ،لکھاری اور پروفیسر اپنے تجربات کی بنیاد پر کسی سماج کی تہہ تک پہنچ کر اسکی خوبیوں اور خامیوں کو پرکھ کر تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے- اس کتاب میں فاروق بلوچ، بلوچ قوم کی ان خوبیوں اور خامیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو قدیم دور اور دور جدید میں بلوچ قوم اور بلوچ سماج نے پیش کی ہے-

ڈاکٹر فاروق بلوچ نے بلوچ تاریخ پر کئی تصانیف لکھیں جن میں بلوچ اور ان کا وطن ،خان اعظم نوری نصیر خان اور دیگر شامل ہیں-

بلوچ قوم کی سماجی تشکیل کے بارے ميں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی تشکیل کب ہوئی؟ لیکن اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ خطہ بلوچستان کے قدیم باشندے ابتدائی انسانی سماج کی تشکیل کا آغاز کر چکے تھے ۔ ماہرین آثار قدیمہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خطہ بلوچستان میں قبائلی تشکیل کا آغاز زمانہ ما قبل از تاریخ عہد سے ہی شروع ہو چکاتھا۔

خاندان کا آغاز ہوچکا تھا اور ان کی تعداد بھی بڑھنے لگی تھی۔

یہی ابتدائی خاندان ہی تو بعد ازاں قبائل کی شکل اختیار کرنے لگے ۔

اس ابتدائی اشتمالی نظام کی نوعیت مدرسری تھی یعنی قبیلہ کی سربراہی ایک خاتون کرتی تھی ۔

تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بلوچستان کے خطے کے ابتدائی باشندے سہولیات کےفقدان، موسموں کی شدت اور کسی مستقل پیشے سے وابستگی نہ رکھنے کے سبب نیم خانہ بدوشانہ زندگی بسر کرتے تھے ۔

سردیوں میں گرم مقامات اور گرمیوں میں ٹھنڈے علاقوں کی جانب ہجرت کرنا معمول بن گیا تھا۔ زمانہ قدیم میں بلوچستان میں دو حکومتیں موجود تھیں ۔ ایک حکومت شُمالی اضلاح پر مشتمل تھی اور دوسری جنوبی علاقوں پر مشتمل تھی ۔

یہ خطہ ایک ایسے مقام پر واقع ہے کہ جہاں نہ صرف مشرق و مغرب بلکہ شمال اور جنوب بغلگیر ہوتے ہیں ۔ دنیا کا وہ خطہ زمین جو جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے اس وقت تین مختلف ممالک میں منقسم ہے ۔اور اس کا ہر حصہ جُداگانہ طورپر بلوچستان کہلاتا ہے ۔ تاریخی بیانات کی روشنی میں اگر اس قوم کے پس منظر کو دیکھا جائے تو اُن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کم از کم تین ہزار سال قبل بھی اس خطے میں وجود رکھتے تھے ۔اور قدیم ترین اقوام میں سے ایک ہے ۔اور دنیا کی قدیم ترین ثقافت کی وارث ہے ۔

پاکستان میں شامل بلوچستان کے بعض علاقے پاکستان کے باقی تین صوبوں میں شامل ہے اس وسیع و عرض خطے کا کل رقبہ تین لاکھ چالیس ہزار مربع میل بنتا ہے ۔قدیم تواریخ میں تو بلوچ قبائل کی آبادی اور اُن کے عظیم الشان لشکروں کو ایرانی پہاڑی سلسلے کوہِ البرز کے دامن اور کوہِ زاگروس کے دروں اور مشرق میں تمام صحرالوط بشمول کرمان تک بیان کیا گیا ہے ۔

وہ جہاں بھی رہتے ایک تو سب کے سب بلوچ یا زیادہ سے زیادہ کوچ اور بلوچ کہلاتے تھے (کوچ و بلوچ یعنی پہاڑی و صحرائی لوگ)

جبکہ دوسرا یہ کہ وہ باقی ماندہ اقوام سے بلکل الگ تھلگ اپنے قبائلی و قومی روایات کے اندر رہتے ہوئے آذادانہ زندگی بسر کرتے تھے ۔

قدیم یونانی ، عرب ، فارسی ، مورخین جس طرح اِس کا نقشہ بیان کرتے ہیں۔ ان سے نہ صرف اس قوم کی جغرافیائی حدود کی بھی وضاحت کرتے ہیں بلکہ ان کی سماجی زندگی پر بھی کافی روشنی پڑتی ہے ۔ مورخین کے بیانات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس قوم کی داستان بہت ہی قدیم ہے ۔

بالخصوص قبل از اسلام ایرانی ، یونانی بعدازاں عرب ادوار میں بھی مضبوط کردار اور طاقتور ، جمعیت کا تزکرہ تمام قدیم کتب میں دستیاب ہے ۔ عرب مورخین ابنِ خلدون ، ابنِ خردانہ ، ابنِ حوقل ، عبداللہ یا قوت ، ناسر خسرو ابن حوقل ،(جغرافیہ دان) وغیرہ شامل ہیں۔

اس خطے کی اتنی بڑی اہمیت کے پیش نظر بڑی طاقتوں میں سے ہر ایک کی یہی کو شش رہی کہ یہ پورا خطہ اُن کے دسترس میں آئے اور یہ کام آج تک جاری ہے ۔

تاریخ کے صفحات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ماضی سے لیکر دورِ حاضر تک اس خطے پر بیرونی حاکمیت کے خلاف ہمیشہ شورش برپا رہی ہے ۔

ڈاکٹر فاروق بلوچ اپنے کتاب میں کچھ یوں بھی لکھتے ہیں کہ انگریزوں کی آمد تک اس قوم کی جغرافیائی حدود موجودہ مشرقی ایرانی اور جنوب و جنوبی مغربی افغانستان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ جبکہ اس کی مشرقی حدود دریائے سندھ و پنجاپ سمیت صوبہ KPK میں بھی شامل ہیں۔

ہیروڈوٹس جس کو(Father of history ) کہا جاتا ہے

تاریخ کی پھیلی کتاب (ہسٹری آف ہیروڈوٹس) میں اس قوم کےمشہور معروف قبائل کے بارے میں زبردست معلومات ملتی ہے ۔ یہ قوم حضرت عیسی کی پیدائش سے قبل اس خطے میں وجود رکھتی تھی ۔ یونانی مورخین اور سڑیبو بھی حضرت مسیح کی پیدائش سے قبل اس قوم کا تذکرہ دیتے ہیں ۔ فارسی، ایرانی، یونانی، مورخین کے علاوہ اسلامی عُہد میں بھی عرب مورخین کے کُتب بھی اس قوم کی سیاسی و سماجی تاریخ کے حوالے سے اہم دستاویزات میں شامل ہیں ۔

ابو الکلام آذاد کا شُمار برصغیر ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کے ممتاز علما اور سیاست دانوں میں ہوتا ہے ان کی ایسی تحریروں میں ترجمان القرآن کے عنوان سے قرآن پاک کی تفسیر اور صحاب کہف اور یاجوج ماجوج کے عنوان سے قرآن پاک سورت کہف کی تفسیر پر مشتمل اہم کتاب ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ کتاب اور دعویٰ بلاشبہ بلوچ قوم کی قدیم تاریخ کے بارے میں بڑی سند کا درجہ رکھتا ہے ۔ جس سے اس حقیقت کا بھی ادراک ہوتا ہے بلوچ قوم اور اس خطے کا بیان قرآن پاک کے مقدس اوراق میں بھی ملتی ہے ۔ جو بلوچ قوم کیلئے کسی عظیم الشان اعزاز سے کم نہیں ۔

اس کتاب میں نہ صرف بلوچ کے تاریخ اور جغرافیہ بلکہ بلوچ قوم کی چیدہ چیدہ خوبیوں پر بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے- قدیم سے لیکر جدید تک (بلوچ سماج میں عورتوں کے مقام )وغیرہ

یہ ایک تاریخی کتاب ہے جس کو پڑھ کر بلوچ سماج کے تاریخی ارتقاء اور سماج میں موجود تضادات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے- اس کتاب کو پڑھ کر میں یہ کہنا چاہتا ہو کہ ہم بلوچ ہونے کے دعویدار ہے اور خود کو بلوچ سمجھتے ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ اپنے تاریخ سے آگاہی حاصل کریں ،اپنے رسم و رواج کی پاسداری کریں – ہم اپنے تاریخ،تہذیب و رسم و رواج کو فراموش نہ کریں بلکہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دور جدید میں وہ کونسے رسم و رواج ہے جنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا وہ کونسے روایات ہے جنہیں ختم ہونا چاہیے -اگر ہم بحثیت بلوچ اپنی قومی تاریخ کا مطالعہ نہ کریں اور اپنی مزاحمت کو بھول جائیں تو یقین مانیں اس مفاد پرست دنیا میں ہمارے لئے غلامی کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہے گا-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں