سی ٹی ڈی؛ ایک ریاستی ڈیتھ اسکواڈ ۔ بہادر بلوچ

475

سی ٹی ڈی؛ ایک ریاستی ڈیتھ اسکواڈ

تحریر: بہادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏بلوچستان کئی دہائیوں سے آزادی کی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔ پاکستان ؤ چائنا بلوچ سرزمین اور وسائل سے مالا مال خطے پر طاقت کے زور پر قبضہ برقرار رکھنے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں لیکن سرزمین کے بہادر سپوتوں کی جنگی مہارت اور بہتر حکمت عملیوں کی وجہ سے قبضہ گیر کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں مل رہا ہے۔

‏بلوچستان پر پاکستانی قبضے کو پچہتر سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے روز اوّل سے آج تک ظلم ؤ جبر کے ہر ہتھکنڈے بلوچستان کے لوگوں پر آزمائے ہیں اور بلوچستان میں شاید ہی ایسا کوئی گھر اور خاندان ہو جو جبری گمشدگی اور پاکستان فوج کے درندگی کا شکار نہ ہو۔

کچھ سالوں سے بلوچ قوم پر پاکستان کے مظالم کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے، ریاست عالمی جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر بچوں، نوجوانوں، بزرگوں اور عورتوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہاہے ۔ ہزاروں بلوچ جبری گمشدہ کردیے گئے ہیں جو زندانوں میں دردناک ازیتیں سہ رہے ہیں، سینکڑوں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پہاڑوں اور ویرانوں میں پھینک دی گئی ہیں اور اب فرضی پولیس مقابلوں میں جبری گمشدہ افراد کو قتل کیا جارہا ہے ۔

بلوچستان پر پاکستان کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے بلوچ سرزمین کے بہادر سپوت برسرپکار ہیں اور جہد آزادی کے سرمچار بلوچ وطن کو آزاد کرنے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بڑی دلیری کے ساتھ پیش کررہے ہیں ۔

‏قابض پاکستان بلوچ قومی آزادی کے تحریک کو ختم کرنے کے لئے کئی طریقے آزما رہا ہے ۔ سنہ 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرنے کے بعد ریاست نے بلوچوں کی نسل کشی کے لیے سیاسی کارکنوں، ادیبوں، ڈاکٹر، اساتذہ سمیت ہرمکاتب فکر کے لوگوں کو جبری گمشدہ کرکے مسخ شدہ لاشیں گرانے کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدہ افراد مار دیے گئے۔ توتک میں اجتماعی قبر دریافت ہوا جس میں سو سے زیادہ افراد کی لاشیں برامد ہوئیں۔ توتک اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سینکڑوں لاشوں کا ملنا بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے جو آج تک جاری ہے۔

‏ پاکستانی فوج نے بلوچ آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنے کے لیے جو طریقہ واردات شروع کیا تھا وہ اُس میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہے کیونکہ سینکڑوں بلوچ دانشوروں اور رہنمائوں کی شہادت نے بلوچ کاز کو ناقابل تلافی نقصان سے دو چار کیا ہے لیکن بلوچ شہدا کے وارثوں نے اس عزم کا ارادہ کر رکھا ہے کہ وہ مرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنی آزادی سے دستبراد نہیں ہونگے۔ ریاستی پالیسوں کے باوجود بلوچ قوم آزاد بلوچستان کی جدوجہد کو منزل کے جانب گامزن کئے ہوئے ہیں۔

بلوچ قومی آزادی کی جہد کو ختم کرنے کے لیے ریاست نے مسلح جہتوں کی تشکیل کا فیصلہ کیا جن کا کام بلوچ سیاسی اور مسلح جہدکاروں کو نشانہ بنانا تھا۔ تحریک نفاز امن،الفرقان لشکرجھنگوی اور شفیق مینگل جیسے ٹولے کو زمہ داری دی گئی کہ وہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو جدوجہد سے روکنے کے لیے جو حربے ہوں استعمال کریں۔ مسلح جہتوں کے ہاتھوں سینکڑوں سیاسی کارکنوں سمیت ہمارے سیاسی استاد ؤ ادیب صباء دشتیاری، عبدالرزاق ،زاہد آسکانی اور کئی بلوچ دانشور شہید کردیے گئے، اُن کی شہادت سے بلوچ قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے ۔

‏ریاست اپنے پالیسیوں میں ناکام ہونے کے بعد اب سی ٹی ڈی کو استعمال کررہا ہے ۔ سی ٹی ڈی کے نام پر پاکستان آرمی جبری گمشدہ افراد کا قتل کررہا ہے ۔ سی ٹی ڈی کو متعارف کرنے کا مقصد فوج کے گناہوں پر پردہ ڈالنا ہے ۔ جبری گمشدہ افراد کو سرمچار قرار دے کر قتل کررہے ہیں تاکہ فوج پر انگلیاں نہ اٹھائیں جا سکیں اور پولیس جیسے ادارے کو جن میں اکثریت بلوچوں کی ہے انہیں سرمچاروں کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکے۔

‏سی ٹی ڈی بلوچستان میں سرکاری ڈیٹھ اسکواڈ کا کام کررہا ہے ۔ سی ٹی ڈی کو بلوچستان کے طول عرض میں پھیلانے کا فیصلہ کیاجاچکا ہے جو برائے راست فوج کی نگرانی میں کام کرے گا ۔ بلوچستان میں بلوچوں کی ماورائے عدالت قتل سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے اور پاکستان آرمی اور سی ٹی ڈی فرضی مقابلوں میں تیزی لاچکے ہیں ۔ حالیہ دنوں بلوچ شاعر تابش بلوچ کو چار دیگر جبری گمشدہ افراد کے ساتھ فرضی مقابلے میں شہید کیا گیا ہے ۔ زیارت کے دل دہلا دینے والے واقعہ میں دس سے زیادہ افراد جو کئ سالوں سے جبراً لاپتہ تھے انہیں سرمچار قرار دے کر شہید کیا گیا تھا۔تربت اور خاران میں ریاستی جبر سے تنگ آکر بلوچ نوجوان زہنی دباو کا شکار ہوکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ حالیہ دنوں خاران میں سی ٹی ڈی نے عجب یلانزئی کو اُن کے گھر سے جبراً لاپتہ کردیا جو ایف ایس سی کا طالب علم ہے اور بعد میں انہیں نورمحمد مسکانزئی کے قتل میں ملوث قرار دیا گیا جو سراسر جھوٹ ہے ۔ عجب یلانزئی کے والد نے واضح کیا ہیکہ نورمحمد مسکانزہی کے قتل کے وقت عجب یلانزئی گھر میں موجود تھا لیکن سی ٹی ڈی جھوٹی کہانیاں گھڑ کر فرضی مقابلوں کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ روزانہ اُن کے گھر سیکیورٹی فورسز کے چھاپوں سے تنگ آکر عجب یلانزئی کے بھائی لطف اللہ اور اُن کی بیوی امیرزادی نے خودکشی کرلی ۔ بلوچستان میں خودکشیاں ریاستی جبر کی وجہ سے ہورہے ہیں اور عالمی اداروں،صحافی حضرات اور سیاستدانوں کی اِن واقعات پر خاموشی ظلم کو مزید دوام بخشنے کے مترادف ہیں۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو روکنے کے لئے ریاست کے ہتھکنڈے دو دہائیوں سے جاری ہیں۔ ہمارے ماوُں کے لخت جگروں کے سینوں کو کبھی گولیوں سے چھلنی چھلنی کردیتے ہیں تو کبھی تیزاب سے اُن کے چہرہ مسخ کرکے جنگلوں اور وادیوں میں پھینک دیتے ہیں لیکن پاکستان بلوچستان میں بربریت کے باوجود تحریک آزادی کے کاروان کو روکنے میں ناکام ہے ۔

جب فرعون کے دن پورے ہو جاتے ہیں تو کوئی موسٰی ضرور نازل ہوتا ہے ۔ بلوچ ہزاروں سال سے بلوچستان میں زندگی گزار رہے ہیں اور بلوچ تاریخ گواہ ہیکہ یلغار کرنے والے بیرونی طاقتوں کو یہاں ہمیشہ سکست سے دوچار ہونا پڑا اور چین ؤ پاکستان کو بھی یہاں شکست کے سوا کچھ نصیب نہیں ہو گا ۔

بلوچ سرزمین پر قربان ہونے والے بلوچ فرزند تاابد نمیران رہیں گے اور شہیدوں کے لہو کے ہر قطرے کا حساب ریاست پاکستان کو دینا ہوگا جو ناپاک ریاست کو بنگلادیش میں اور فرانس جیسے قبضہ گیر کو الجیریا میں دینا پڑا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں