بلوچستان میں مہنگائی، اشیاء خورد نوش عوام کی دسترس سے دور

200

اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح 27.3 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ کم آمدنی والے افراد کے ذرائع آمدن نصف ہوگئے ہیں جبکہ غور طلب پہلو یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں مہنگائی نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔

کوئٹہ شہر میں ڈبے والے دودھ کے ساتھ ساتھ کھلے دودھ کی قیمتوں میں بھی 20روپے تک اضافہ کر دیا گیا۔ دوسری جانب موسمی سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر نے لگیں۔

روزانہ کے استعمال میں آنے والی سبزی پیاز، آلو، ادرک، لہسن کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور ہو نے لگیں جبکہ انڈے اور برائلر گوشت کی قیمتو ں میں بھی استحکام نہ آ سکا۔

تفصیلات کے مطابق شہر بھر میں مہنگائی نے پنجے گاڑ لئے دودھ کی قیمتوں میں ایک دفعہ پھر سے اضا فہ کر دیا گیا ڈبے والے دودھ کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا اسی طرح کھلے دودھ کی قیمتیں بھی 15ے20 روپے بڑھا دی گئیں۔

دوسری جانب موسمی سبزیوں کی بہتات ہونے کے باوجود سبزیوں کی قیمتوں میں استحکام نہ لایا جاسکا اس کی وجہ سے روزانہ کے استعمال ہونے والی سبزیاں جن میں پیاز، آلو، ٹماٹر، ادرک، لہسن اور دیگر سبزیاں شامل ہیں ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی اسی طرح روزمرہ استعمال ہونے والے دیگر اشیا خورونوش جن میں انڈے اور برائلر گوشت ہیں ان کی قیمتوں کو بھی کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں استحکام نہ آنے کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ کمیٹیوں فعال ہونا بھی کہا جا سکتا ہے اس حوالے سے مارکیٹ میں خریداری کے لیے آئے عوام کا کہنا ہے کہ مہنگائی ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافہ معمول بن کر رہ گیا ہے اب تو ہر صبح ایسے ہی لگتا ہے کہ مہنگائی کا ایک نیا بم پھٹے گا۔ حکومتوں کی توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر ہونی چاہیے۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں پرائس کنٹرول ٹیمیں قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔