اوج و ازل ۔ برزکوہی

1810

اوج و ازل

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

میں ابراہم لنکن کے اس بات سے متفق ہوئے بنا نہیں رہ سکتا کہ “مارنے کا کوئی باعزت طریقہ نہیں، تباہ کرنے کا کوئی شریف طریقہ نہیں، جنگ میں کچھ بھی اچھا نہیں، سوائے اس کے انجام کے۔”

جنگیں آسانی نہیں، یہ تباہی لاتی ہیں، ماوں کے پیٹ میں پلنے والے بچوں تک کو سنگینوں کے نوک سے چیر دیا جاتا ہے، خوبصورت جوان چہرے چَروں سے مسخ ہو جاتے ہیں، وہ مرد جو صبح بچوں کے ہمراہ کارٹون دیکھ کر قہقہے مارتے تھے، وہی ایک دوسرے کے انتھڑیوں میں ہاتھ ڈال کر بنا کپکپائے جان لیتے ہیں لیکن اس درہم برہم خون کی پیاسی دنیا میں جنگ اور جوابی تشدد کا خوف ہی وہ بنیادی اینٹیں ہیں، جن سے امن، آزادی اور استحکام کی دیوار کھڑی کی جاسکتی ہے۔ اسی لیئے چین سے لیکر یونان، روم سے لیکر امریکہ کے مفکر عسکری قوت کو امن، خوشحالی اور آزادی کا سرچشمہ قرار دیتے رہے۔

چینی جنرل سن زو یہ ہدایت کرتا ہے کہ “امن میں جنگ کی تیاری کرو اور جنگ میں امن کی تیاری۔”، ارسطو کہتا ہے کہ “ہم جنگ لڑتے ہیں تاکہ امن سے رہ سکیں۔”، رومن جنرل ویجیٹیس کہتا ہے کہ ” اگر امن چاہتے ہو تو، اپنی جنگ لڑو اور جیتو۔” اسی طرح امریکہ صدر روزویلٹ کے یہ الفاظ تاریخی حیثیت رکھتے ہیں کہ “بات مدہم لہجے میں کرو لیکن ہاتھوں میں ایک مضبوط ڈنڈا تھامے رکھو۔”

جنگ صرف تشدد کو روکنے اور امن کی حفاظت کے لیے طاقت کے خطرے کے استعمال کا نام نہیں بلکہ یہ جارحیت یا ناانصافی کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے لیے تیار رہنے کی بھی بات ہے۔ جنگ اپنی ہر حالت میں ایک “بزدلانہ امن” سے افضل ہے۔ ہتھیار ڈالنے سے کبھی امن قائم نہیں ہوتا بلکہ یہ نا انصافی اور تشدد کو حکمرانی کے قابل بناتا ہے۔ ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ “وہ، جو، مگرمچھ کو اس امید سے کھانا کھلاتا ہے کہ وہ اسکے شَر سے محفوظ رہیگا، سب سے پہلے وہی مگر مچھ کا خوراک بن جاتا ہے۔”

جنگ کو مشکل ترین مراحل سے گذار کر بھی آگے بڑھنا، ہمت نہیں ہارنا، پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا، رفتار کی شدت دن بدن بڑھانا، ہر وقت تازہ دم و پرچوش رہنا۔ تذبذب، ناامیدی، مایوسی اور ذہنی الجھنوں کو اپنے گرد بھٹکنے نا دینا ہی اس جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کا غماز ہوتا ہے، جو جنگ کو امن و آزادی میں بدلنے کا غماز بنتا ہے۔

بھگوت گیتا میں کرشنا، ارجن کو اپنی بزدلی چھوڑنے اور جنگ لڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرو، جس کے وہ مستحق ہیں۔ ہم ان دو گروہوں کے درمیان امن قائم کرسکتے ہیں، جہاں دونوں امن کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگر ایک گروہ کا جنگ پر اصرار ہے، تو آپ اس کا مقابلہ امن کے ساتھ کیسے کر سکتے ہیں؟ جنگ اور امن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ہمیں دونوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کب کیا مناسب ہے۔ لہٰذا، جب پرامن مذاکرات ممکن ہوں تو لڑائی کرنا نامناسب ہے، لیکن جب امن کے تمام دروازے بند ہوں تو لڑائی سے گریز کرنا سب سے بڑی بزدلی اور جابر کو تقویت دینا ہے۔ جنگ نا صرف ضروری ہے بلکہ کبھی کبھار سب سے بڑا اخلاقی فرض ہے۔

میں پہلے بھی یہ عرض کرچکا ہوں کہ آزادی کے ایک سپاہی کو اچھے طریقے سے اس حقیقت کو جاننا ہوگا کہ اسکی آزادی کی قیمت کیا ہے، ہر ایک انسان حق و آزادی کا سپاہی اسلیئے نہیں بن سکتا کیونکہ فہم و ادراک کی یہ گہرائی اور عاقبت اندیشی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی کہ وہ جنگ میں امن کو دیکھ سکے، اور اس ٹھوس حقیقت کو قبول کرسکے کہ جس آزادی، امن و خوشحالی کی وہ چاہ رکھتا ہے، وہ جنگ و بربادی کے رستے سے ہی گذر کر مل سکتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا میں آج جتنے بھی خوشحال و ترقی یافتہ اقوام آزادی کی زندگی گذار رہے ہیں، ان سب نے یہ قیمت ادا کی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنا خراج ادا کردیا ہے۔

اگر ہم آج بھی انسانیت کے اس معراج سے دور ہیں، جہاں ہمیں تمام انسانی آزادیاں نصیب ہوں تو اسکا مطلب ہے کہ ہم جنگ ومزاحمت کے اس سطح تک ابھی تک نہیں پہنچے، شاید ہم قربانی و مشکلات کو اس سطح تک نہیں سمجھ سکے، شاید ہم شعور کے اس سطح تک نہیں پہنچے۔ جدوجہد میں ازیت، مصیبت، تکالیف، درد و کرب کی جس حد کو چھونے کے بعد نتیجہ نکلتا ہے، شاید ہم اس سیما کو اب تک چھونے سے پَرے رہے ہیں۔

آج ہم دو دہایاں گزرنے کے بعد سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد بہت آگے نکل چکی ہے، بالکل اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماضی کے نسبت واقعی پیش رفت ہوئی ہے، لیکن کیا کماحقہ پیش رفت آئی ہے؟ اگر نہیں، تو نتیجہ خیزی مزید تیزی کے صبرآزما عمل میں پنہاں ہے یا پھر امن کی سنیاس میں؟

ہم کہتے ہیں دشمن نے ظلم کی انتہاء کردی ہے، واقعی ظلم بہت ہورہا ہے لیکن دشمن کے قہر کی انتہاء ابھی تک اسی طرح باقی ہے، جس طرح بلوچ کی جنگ کی انتہاء باقی ہے۔ ان انتہاوں کے برزخ سے گذر کر ہی ہم نئے ابتدا کی یقین وامید باندھ سکتے ہیں۔

وہ جسے انتہاوں سے وحشت ہے، وہ کسی ابتدا کا حقدار نہیں
اوج کا مفرور، ازل کا مجرم ہے
وہ انتہائیں کیا ہیں؟
خون، دہشت، قربانی
پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟
بس نا رکنے کا ایک فیصلہ
جان کی عِوض؟
ایک ابتدا نو، ایک پر امن آزادی

ہمارا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے تجزیات وخواہشات کے سطحی و محدود دنیا میں خود کو تہذیب، شرافت، انسانیت و اخلاقیات کی چادر میں یوں ڈھانپنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسکے نیچے خوف کا میلا کچیلا لباس دِکھنے نا پائے۔

ایک مزاحیہ خام خیالی کہ دنیا جہاں کے جن “مہذب وامن پسند اقوام و ممالک” کے سامنے ہم خود کو رگڑے جاتے ہیں، ہم بھول ہی جاتے ہیں کہ تہذیب، امن و آزادی کے دعویدار بننے سے پہلے وہ ان کا خون بہا، تاریخ کے بھیانک ترین جنگوں کی صورت میں دے چکے ہیں اور آج بھی ادا کررہے ہیں، ذرا انکے سفید قمیض کے آستینوں کو چڑھا کر دیکھیں تو کہنیوں تک لہو رنگ ملیں گے۔ وہ بھی ہمارے “تہذیب، شرافت وانسانیت” کے دعووں پر لوٹ پھوٹ کر ہنس رہے ہونگے کہ ہماری زمین پر قبضہ، زبان وثقافت اور تاریخ فنا کے دہانے پر، وسائل و ساحل لوٹ کی منڈی میں بک رہے ہیں، گلی چوراہیں گلی لاشوں کا باس مار رہی ہیں، اپنی ہی سرزمین، اپنے ہی وطن میں پاکستان ہمیں جانوروں کی طرح پٹھا لگا کر رکھ رہا ہے، پھر بھی ہم بڑے مہذب و شریف النفس انسان ہیں۔

ایک تلخ حقیقت سننا چاہوگے؟ دنیا میں تہذیب وانسانیت کا سب سے عظیم مجسم وہ قومیں نہیں، جنہوں نے واجب جنگوں کے سامنے سر جھکا کرامن قبول کیا اور عدم تشدد کا پرچار کیا، بلکہ وہ قومیں ہیں، جنہوں نے سب زیادہ جنگیں جیتیں۔ جتنی جنگیں جیتو گے، اتنی ہی مہذب کہلاو گے اور منہ سے انسانیت کی بات اتنی ہی زیادہ با اثر ہوگی۔ یقین نہیں آتا تو اعدادو شمار دیکھ لو، اس وقت تک دنیا میں سب سے زیادہ جنگیں جیتنے والا ملک فرانس ( ۱۱۱۵) ہے، دوسرا ملک برطانیہ (۱۱۰۵)، تیسرا امریکہ (۸۳۳) چوتھا روس (۴۹۱) اور پانچواں جرمنی ( ۴۲۵) ہے اور جب بھی آپ ” مہذب اقوام” اور “انسانیت کے علمبردار” اقوام کہہ کر، مخاطب ہوکر انسانیت کے بنیاد پر اپنے بچاو کی اپیلیں کرتے ہیں، آپ کے ذہن میں یہی ممالک و اقوام ہوتے ہیں نا؟

بات یہ نہیں کہ بلوچ ایک مہذب قوم ہے یا نہیں، شاید ہوگا تاریخ وماضی کے دھندلکوں میں کہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارے ربط کو ماضی کے تسلسل سے کاٹ کر آج کو دیکھا جائے تو ہم کیا ہیں؟ ہمیں یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ہماری تہذیب کی بستاروشرافت کی بستار قبضے کے جوتوں تلے مسل چکی ہے اور اس وقت ہم کچھ نہیں سوائے ایک غلام انبوہ کے، ہماری اب یہ تیسری نسل ہے، جو پنجابی کے زیر عتاب ہے۔ اگر تاریخ سے ہم کچھ سیکھتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ غلاموں کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔

غلام اقوام طاقتوروں کی تاریخ میں حرکت میں ایندھن کے سوا کچھ نہیں، ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ دلائل، مباحث، منطق سے ہم زمین آسمان ایک کرلیں اور کہیں کہ ہماری تہذیب ہے، تاریخ ہے، روایات ہیں، زبان ہے، ہم انسان دوست ہیں، مہمان نواز ہیں، باہوٹ جل ہیں، مہذب ہیں، سیکولر و تعلیم یافتہ ہیں، باشعور ہیں مگر دوسری طرف سے ضرور یہ جواب ملے گا کہ ہیں تو آپ غلام۔

جب انسان اپنے حقیقی اوقات اور حیثیت سے بخوبی واقف ہوگا، تب ہی جاکر وہ فرد، قوم، تنظیم، گروہ یا قبیلہ خلائی و تصوراتی دنیا سے نکل کر اپنی حیثیت و أوقات، اقدار و معیار کو اعلیٰ ترین مقام تک سر کرنے کی حقیقی جدوجہد شروع کرسکے گا۔ آج ہر بلوچ کو یہی سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ انفرادی حوالے سے ہم جو بھی ہیں، جہاں بھی ہیں، وہ سب مصنوعی ہیں۔ تاریخی وعلمی تناظر سے اگر دیکھا جائے تو ہم صرف غلام ہیں۔

ابھی تک ہم حقیقی طور پر غلامی کے خلاف جنگ کو سمجھ نہیں رہے ہیں، ایک بات بالکل واضح ہے کہ جنگ ایک بے رحم عمل ہے۔ اگر اس کو بے رحمی سے دشمن کے خلاف نہیں لڑو گے اس وقت تک آپ خود بے رحمی کا شکار رہوگے۔ کیونکہ طاقت میں انسانیت ہے، طاقت تہذیب ہے، طاقت میں اخلاقیات ہے، طاقت میں جمہوریت ہے اور طاقت میں ہی حیثیت ہے۔ اور حصولِ قوت ماضی کے شان کے ڈھول پر محوِرقص ہونے سے نہیں بلکہ خون، پسینہ اور آنسووں کے دریا بہانے سے ملتی ہے۔ پھر اسی دریا کے دہانے پر ہی تہذیب قائم ہوتی ہے، جس میں آزاد انسانوں کا بسیرا ہوسکتا ہے، درندوں سے بچنے کیلئے آزادی کی فصیل کھڑی کرکے ہی انسانیت کی پود اگائی جاسکتی ہے۔

کمزوری وبے بسی، چیخ وپکار، فریاد اور رونے پیٹنے سے نہ کوئی ہمیں انسان سمجھے گا اور نہ ہی دنیا میں ایسے قوم اور انسان ہیں، جو آپ کو، آپ کی آواز کو، کمزور وضعیف حیثیت میں سمجھنے، سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ضرور دنیا میں ایسی قلیل تعداد میں انسانیت کے علمبردار انسان، تنظیمں و ادارے وجود رکھتے ہیں، لیکن وہ بھی طاقتوں کے زیر عتاب رہ کر کچھ بھی بدلنے سے قاصر ہیں۔

بدقسمتی ہم جنگ وتشدد اور جوابِ تشدد کے فلسفے کو سمجھے بغیر بندوق اٹھا تو لیتے ہیں، لیکن ایسی صورت میں، وہی بندوق خود اذیت بن جاتا ہے۔ پھر ہم اپنے مزاج وطبیعت کے مطابق جس کام کو آسان سمجھتے ہیں، پھر آکر پورے بلوچ مسئلے کا حل اسی کام کو ہی قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ بالکل تحریک کے تمام اجزاء پر کام ہو، کام کی ضرورت ہے، لیکن یہ ماننا ہوگا کہ تمام اجزاء بندوق سے نکلے گولی سے ہی آواز پارہے ہیں، تمام کے تمام میدان جنگ میں بہتے لہو کے گرمائش سے ہی توانائی لے رہے ہیں۔ جب بندوق کی نلی سے نکلی ہوئی گولی سرد پڑگئی تو باقی تمام اجزاء خود بخود مردہ خانے میں پڑے ملینگے۔

ایک انٹریو میں سردار اختر مینگل، سرفراز بگٹی وانواراللہ کاکڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے
کہ جب پہاڑ والے مذکرات کرینگے تو مجھے اور دوسروں کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا۔

اگر واقعی ہمارا ایمان، یقین اورعقیدہ جنگ کے خلاف جنگ، تشدد کا جواب تشدد کا ہے، تو سب سے پہلے جنگ میں وہ تیزی لانا ہوگا، وہ شدت پیدا کرنا ہوگا، جو دشمن کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے کان کھڑے کردے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ شدید جنگ سے دونوں اطراف نقصانات ہونگے، ان نقصانات کی راکھ پر ہی کھڑے ہوکر ہم نئے تعبیر تشکیل دے سکیں گے۔ ہمیں سب کچھ سہنے کیلئے ذہنی حوالے سے تیار رہنا ہوگا۔

دنیا کی تاریخ جنگوں کی تاریخ ہے، ہم کبھی بھی جنگوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرپائیں گے، حتیٰ کہ آکسفورڈ ڈکشنری کی جنگ کی تشریح یہ ہے کہ ” امن، دو جنگوں کے بیچ وقفے، یا ایک جنگ کے اختتام کا نام ہے۔” امن، جنگ کے بغیر ممکن نہیں، جس طرح زندگی کے بغیر موت کا تصور ممکن نہیں۔ ہماری خواہشات کے بنیاد پر ہماری جان جنگوں سے نہیں چھوٹ سکتی۔ جب تک انسان ہے، جنگیں جاری رہیں گی، اور سب سے زیادہ متاثر وہ رہیں گے، جو اپنی جنگیں نہیں لڑیں گی۔ بد ترین جنگ، ہاری ہوئی جنگ ہے، اس سے بھی بدترین جنگ وہ ہے، جو آپ پر واجب تھی اور آپ لڑے نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں