سمی کی پکار ۔ گہور بلوچ

450

سمی کی پکار

تحریر: گہور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اِس جہاں میں لاتعداد انسانوں کا جنم ہوا ہے مگر بہت کم ہستیاں ہوتے ہیں جو انسانی ذہنوں میں اپنے نقش چھوڑنے میں کامیاب ہوں، ماضی کے ان کرداروں کی بدولت حال کی تاریخ بنتی ہے اور حال کے ان کرداروں کی بدولت مستقبل کا تاریخ جنم لیتی ہے۔

ان ہستیوں کے کردار کو مورخین کتابوں کی زینت بناتے ہیں۔میں نے بھی اپنی زندگی کے اس میدان میں ایسے انگنت افراد کو دیکھا اور سنا ہے جو جسمانی طور پر جدا ہوچکے ہیں ان کا کردار مورخ کو قلم اٹھانے پہ مجبور کرتا ہے اور جو زندہ ہیں یا ان کے زندہ ہونے کی امید (جبری طور پر لاپتہ ہونے والے فرزند) ان میں ایسے بے شمار نام ہیں جن کا کردار بیان کرنا آسان نہیں لیکن قلم ازخود انہیں اجاگر کر نے کے لیے بے قابو ہوتاہے۔ ایسے کرداراہل قلم کو مجبور کرتے ہیں کہ تمن میں ایک نام ڈاکٹر دین جان کا ہے۔

ڈاکٹر دین جان کو آج ہی کے دن 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کی تحصیل اورناچ ہسپتال سے رات سہ پہر نقاب پوش افراد اٹھا کر لے جاتے ہیں اور تاحال وہ لاپتہ ہے انکے خاندان اور ساتھیوں کو یہ تک علم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔

ڈاکٹر دین محمد کی صاحبزادیاں گزشتہ تیرہ برس سے اپنے والد کی باحفاظت بازیابی کیلئے پریس کلبوں،چوک و چوراہوں سے لیکر اسلام آباد کے عدالتی نظام سے انصاف کی التجاء کرتے نظر آتی ہیں. یہ بظاہر سر سبز اور پرسکوں دکھنے والا اسلام آباد کی نظام عدالت مکمل طور پر بلوچوں کے لئے سیاہ و ازیت ناک ثابت ہوچکاہے، یہی وہ نظام عدالت ہے جو عدم انصاف کے نام پر طاقتوروں کو جواز فراہم کررہی ہے کہ وہ کمزوروں کاجبری استحصال کرے ، ڈاکٹر دین جیسے لوگوں کو اغوا کرے اور پھر خاندان کو ازیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کرے۔

مہلب کی آنکھوں میں انتظار کاطویل سمندر نظر آتا ہے بہتے چشموں کی خاصیت نظر آتی ہے آسمانوں کی بلندیوں جیسا حوصلہ نظر آتاہے وہ ہزار خیالات میں گم ہوکر یک مدار میں گزرنے والی اذیتی کیفیات میں جہد کرتی نظر آتی ہے، بیشمار اپنے ہمنوائوں کودلاسہ دیکر ڈھال بن جاتی ہے خوف کو مات دیکر مزاحمتی اشکال اخذ کرتی ہے بے اثر ہوکر موئثر بننے کی جتن کرتی ہے ہسپتالوں سے لیکر پولیس اسٹیشنوں کی چکریں کاٹتی ہے بے آسرائوں کی ترجمان بن جاتی ہے ظلم ومظالم کی قصیدہ خواں بن کر توانائی فراہم کرتی ہے اور یوں انتظار کی گھڑیاں طوالت پکڑتی ہیں سرد راتیں ہزارہا خیالات کی کرب لیکر آتی ہیں کہ وہ ( دین جان) کس حال میں ہوگا،ڈھانپنے کو میلا کچیلا کپڑا میسر ہوگا کہ نہیں،زنجیر سے ہاتھ تو شل نہیں ہونگے,سالوں کی مسافت میں بدن جھک تو نہیں گیا ہوگا ،بیڑیوں نےقوت برداشت کو چور تو نہ کیا ہوگا، یہ سوچ کر جوان ہوگئی ہے اور پھر علی الصبح سمی کی پکار پر لبیک کرتے پریس کلب پہنچتی ہے گزرے شب کی آنسوئوں کو پونچھتے کارواں میں شامل ساتھیوں کو جہد جاری رکھنے پر حوصلہ فراہم کرتی ہے اورپھر سے انصاف کی التجاء کرتی نظر آتی ہے بار بار ٹوٹ کر اٹھتی ہے اور پھر عدالت میں پیشگی کی امید انصاف سے دل کو مستقل مزاج رہنے کی درخواست کرتی ہے کہ کمبخت دل ہمت کر دین جان تو کوٹھڑی میں انصاف کی منتظر ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ اسی نظام عدالت سے انصاف کی عدم فراہمی کے بعد بھی سمی کےساتھیوں کے ساتھ ظالموں سے لڑتی جھگرٹی فریاد کرتی ہے عدالتی نظام کو بنیاد بنا کر انصاف کی منظر کشی کرتی ہے کہ میرے باباکو عدالت میں پیش کیاجائے،غیر انسانی روش کے طاقتور سڑک کے بیچ انکو گھسیٹتےہیں ننگے پیر دھکے کھاکروین میں بڑھتی ہے, ساتھیوں کی مقدس چادریں تک سر بے مہار کی جاتی ہیں پھر یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا،پولیس اسٹیشن میں بڑی بہن اور واحد سہارا سمی کے سامنے تھپڑ رسید کئے جاتے ہیں پر کمزور نہیں پڑتی مسلسل بازیابی کا مطالبہ دھراتی ہے کہ ڈاکٹر دین جان سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرو بازیاب کرو یہ وطن اور دین جان جیسے والد کی جنگ ہے مجبوراً سہنا پڑتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں