شہزار رائے اور بلوچ . ڈاکٹر مھرین بلوچ

690

شہزار رائے اور بلوچ

تحریر: ڈاکٹر مھرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“وش نہ اِنت جنگانی بدیں بولی
کَے وتی دوستیں مردماں رول ایت”
مست توکلی

جی ہاں یہ بلوچی شاعر مست توکلی کا شعر ہے جو صرف بلوچ قوم کی آپس کی جنگوں کے بارے میں ہے جب یہ کم بخت بلوچ قوم نااتفاق تھے، چاکر اور گوھارام کے زمانے میں آپس کے قبائلی جھگڑے جنگوں میں بدل کر تیس تیس سال تک جاری رہتے۔ مست توکلی یہاں صرف بلوچ قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ بلوچ لوگ آپس میں نہ لڑیں کیونکہ جنگ ایک تباھی ہوتی ہیں جس سے لوگ در بدر ہوتے ہیں۔ لوگوں کو ہجرت کرنا پڑتا ہے اور زندگی مُشکل میں پڑتی ہیں۔ یہ شعر اس زمانے کی ہے جب پنجابی اور پاکستان وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔

لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یک زورآور پنجابی بلوچ قومی آزادی پر قبضہ کرے، بلوچ قومی وسائل معدنیات کا بے دردی سے لوٹ مار کرے، بلوچ قوم کے خلاف جنگی جہاز، ٹوب اور ہر طرح کا ہتھیار استعمال کرے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ طالب علم اور نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں گھروں سے اُٹھاکر ازیت خانوں میں تشدد سے شھید کرکے ان کی لاشیں جنگل اور ویرانوں میں پھینک دے، دشمن بلوچ قوم کی رواج، زبان اور عزت کی پامالی کرے اور بدلے میں بلوچ اُس غلامی کو قبول کرے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اب بلوچ قوم اس ریاست اور پنجابی فوج سے نفرت کرتا یے۔ یہ پنجابی کی ظُلم و جبر کی مہربانیاں ہیں کہ اس نے بلوچ قوم کے دلوں میں پاکستانی ریاست کے خلاف نفرت پیدا کی ہے اور یہی نفرت کو اب بلوچ قوم آزادی کی راہ دیکھ رہا ہے۔

مِسٹر شہزاد رائے کیا بلوچ قوم اتنی جاہل ہے کہ مست توکلی، مُلا پازُل، سید ظہور شاہ ھاشمی، آج کے دور شاعر مبارک قاضی، مُنیر مومن، سید تبعسم مزاری اور آج کے بلوچ تاریخ دان واجہ شاہ محمد مری کو ناسمجھ سکیں؟

مست توکلی ایک بڑا شاعر تھا لیکن ان کی تعلیم تو نہیں تھی؟ وہ ایک چراوہا تھا لیکن آج کے بڑے بڑے عالٰی تعلیم یافتہ بلوچ شاعر کیا کہتے ہیں یہ بھی بلوچ قوم سُنتا اور پڑھتا ہے۔ مبارک قاضی، مُنیر مومن، سید تبعسم مزاری اور منظور بسمل کی شاعری بلوچ قوم کو مزاحمت کا درس دیتے ہیں۔ کیونکہ جنگ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرنا پڑتا ہے.
‏Peace comes after the war

جیسے بنگالی قوم نے پاکستان کو 1970-71 تک عملاََ کرکے دیکھایا اور یہی اب بلوچ قوم کو کرکے دیکھائے۔

اب آتے ہیں آپ کی اصلیت پر کہ آپ خود ھندوستان سے بھاگا ہوا یوپی اور بہاری ہو، آپ کا اپنا کوئی وطن نہیں۔ جھوٹی دو قومی نظریہ والی پاکستانی 1971 میں ٹوٹ گیا اور اب آپ کو ڈر ہے پاکستان دوبارہ ٹوٹ کر آزاد بلوچستان اور سندھودیش بنے گا تو آپ مہاجر کہاں جائیں گے۔ ویسے بھی آپ لوگوں کو پاکستان میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سندھ میں بھٹو نے اربن اور رورال کوٹہ لگا کر آپ لوگوں کی اوقات آپ لوگوں کو دیکھا دی کہ آپ لوگ بھی تیسرے درجے کہ شھری ہیں۔ آپ خود ایک غلام ہو اور پاکستانی سروئے کے مطابق اب کراچی اور حیدرآباد کے مہاجر آھستہ آھستہ مجبوری میں ہجرت کرکے دوسرے مُلکوں میں جا رہے ہیں۔ آپ کا اپنا وجود پاکستان میں خطرے میں ہے۔بلوچ قوم کو گمراہ نہ کریں۔

ویسے گانوں سے آپ بلوچستان کو فتح نہیں کرسکتے۔ اگر گانوں سے مُلک فتح ہوتے تو آپ کشمیر کب کا گانوں سے آزاد کرتے۔ ایک کمزور قوم کی مُلک کو قبضہ کرنا تو آسان ہے لیکن بعد میں اسی غیرت مند اور بہادر قوم کی مُلک کے اوپر قبضہ گیری کو جاری کرنا مشکل ہوتا ہے جیسے ویتنام، عراق اور افغانستان آپ کے سامنے ہے جہاں سوت روس، امریکہ اور نیٹو جیسے سپر پاور کو گوریلہ جنگ میں شکست ہوئی۔ اب آپ کے بھکاری، تباہ معشیت، مہنگائی اور قرض میں ڈوبے ہوئے ملک پاکستان کو بلوچستان میں شکست کا سامنا ہے۔

بلوچ عوام آپ کی گمراھی میں بھی نہیں آئے گی۔ آزاد بلوچستان زِندہ باد


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں