لہو لہان چاغی ۔ شاہ زین بلوچ

476

لہو لہان چاغی

تحریر: شاہ زین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چاغی کی دھرتی رو رہی ہے، چیخ پکار رہی ہے، بے سہارگی کی ثبوت دے رہی ہے، اپنی لاوارث ہونے پہ امید کی منتظر ہے، ریت پر پڑی انسانی لاشیں انصاف مانگ رہے ہیں مگر افسوس عدالتی دروازے بند ہو جاتے ہیں جب مقدمہ بلوچوں کا ہو۔ ایک لمحے کیلئے انسان کوئی ایسے تنہا و ویران جگہ پہ بیٹھ جائے، نہ ہی دنیا کا خیال ہو، نہ ہی ظالم کا خوف ہو، ہاتھ میں تاریخ کی کتاب جس کی ہر ایک صفحہ پر ماضی کی ہر ایک واقعہ قلم بند ہو، یورپین غلامی نظام کا قصہ ہو یا الجزائرہ میں فرانسسی سامراجی تسلط کا ذکر ہو، جبر کی المناک واقعہ ہو، افلاس ہو، ظالمیت ہو، حیوانیت ہو اور ان واقعات سے ایک چیز واضح ہے کہ ایک سامراج یا حاکم کیلئے انسانی خون کوئی معنی نہیں رکھتی ہے گوکہ زمین سرخ ہو جائے لیکن حاکمیت زندہ رہے۔ میرے چاغی کا قصہ بھی کچھ اسی طرح ہے مگر ان سب سے الگ ہے۔ ان میں کافر ہی انسانی خون بہا رہی تھی جب کے لاوارث چاغی میں حاکم بدقسمتی سے مسلمان ہے اور زمین بھی سرخ ہے مسلمانوں کے خون سے مگر فرق نسل کا ہے۔ یہ نسل قدرتی معدنیات کے مالک، ریکوڈک کے وراث، غربت کے ستائے ہوئے اور افلاس کے مارے ہوئے محکوم بلوچ ہے اور ان کا خون ہے جو کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔

غریب بلوچ حمید اللہ کا قتل اور ریت میں تین بلوچ مزدوروں کے لاشیں گواہی دے رہے ہیں کہ زمین بلوچوں کیلئے ایک نہ ختم ہونے والا عذاب بن چکی ہے۔ حمید کی خون سے لال زمین کا رنگ سفید ہوا ہی نہیں تھا کہ محافظوں نے انصاف کی منتظر احتجاجی مظاہرین پہ اندھا دھند گولی چلاہی مزید زمین کو محصوم بلوچوں کے خون سے سرخ کیا گیا مگر ان کے حوصلے اور ہمت کو ہرا نہیں سکا۔ آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے لیکن اگلی صبح ان میں ایک نئے امید کی کرن اور حاکمیت کا شکست نظر آرہی تھی مگر خوف و گھبراہٹ کے مارے ہوئے محافظوں نے پھر ایک دفعہ آئینی احتجاج پر فائرنگ کی پھر زمین پر بلوچوں کا خون بہے گیا مگر ان بے بس لوگوں کا حوصلہ ٹوٹ نہیں سکی۔ زمینی خداوں کو کیا خبر کہ ظلم ہی مظلوم عوام میں ہمت پیدا کرتی ہے۔ غلام اقوام کا تاریخ بھی اس چیز کی دلیل دیتی ہیں کہ ان کی آزادی کا سبب بربریت، قتل و غارت، نسل کشی، جسمانی اذیت، ذہنی دباؤ و ظلم، بھوک اور افلاس ہی بنے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ چاغی کا دلخراش واقعہ اور صوبائی و وفاقی حکومت کے لاعلمی کو دیکھ کر یقین مضبوط ہو جاتی ہے کہ بلوچ قوم ایک غلام قوم ہے۔ غلام قوم کو نہ ہی آپ کے آئین تحفظ دیتی ہے اور نہ ہی سامراج کی بنے ہوئے حکومتیں یا نظام جینے اور انصاف کا حق دیتا ہے۔

چاغی لہو لہان ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان کی میر معتبر اور سیاستدان بلدیاتی الیکشن کی تیاری میں مصروف ہے۔ انہیں بلوچستان کی محکوم عوام کا خیال نہیں ہے اور نہ ہی ان کے خون کا احساس ہے۔ کسی عظیم شخص نے صحیح کہا تھا کہ حکمران وہ ہوتے ہیں جو اپنے آنے والے اقتدار کا سوچھتے نہیں ہے بلکہ اپنے آنے والے نسل کے لے جدوجہد کرتے ہیں۔ شاہد ان حکمرانوں کے علم میں نہیں ہوگا کہ چاغی بلوچستان کے ہی اضلاع میں سے ایک ہیں وہاں پہ بھی کچھ انسان رہتے ہیں اور ان کے ساتھ بھی کچھ ووٹز ہیں۔ اس مشکل وقت میں اور غیر انسانی واقعہ پہ ان کا ساتھ دو کیا پتہ آنے والے الیکشن میں آپ لوگوں کے کام آئے۔ الیکشن کے بعد یہ ضرور پوچھنا کہ زمین لال کیوں ہے اور ریت میں پڑی لاشیں کس کے ہیں۔ سیاستدانوں کے خاموشی سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ المناک واقعہ سرحد پار افغانستان میں پیش آئی ہے کیونکہ یہ میری غلط فیمی ہے کہ گلزمین پاک ہے ایسے واقعات شاہد ہوتے ہی نہیں ہیں یا اپنے حاکموں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ چاغی کی دھرتی انسانی خون سے لال ہوگئی ہے، ماوں کے لخت جگر اذیت سے گزر رہے ہیں، بھوک اور زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ سیاسی حکمران وفاق میں اپنے اقتدار کی لڑائی میں مصروف ہے۔ حکومت گرا سکتے ہیں لیکن آئینی جنگ بلوچوں کیلئے لڑ نہیں سکتے شاہد ان کی کرسی خطرے میں پڑجائے گی۔ کہتے ہیں کہ بلوچستان کا قومی اسمبلی اور وفاق میں کوئی بات نہیں سنتا ہے لیکن پر بھی بہری حکومت پہ امید رکھتے ہیں اور اس کا حصہ بننے کو تیار ہیں چاہے وہ اپوزیشن کے بنچ پہ بیٹھ جائے یا اتحادی ہو، مقصد بلوچ قوم کی خوشحالی، ترقی اور زندگیوں کی حفاظت نہیں بلکہ اپنے طاقت، کرسی اور زمین پہ اپنے خداہی کو زندہ رکھنا ہے۔ یقیناً حاکم کے ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔
سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے علاقے نوکنڈی میں یہ دلخراش واقعہ پیش آیا ہے لیکن اس نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس کے خاموشی نے یقیناً کہیں سوالات عوام کے درمیان پیدا کیئے ہیں کہ بلوچ قوم کی قسمت میں کوئی حقیقی رہنماء لکھا ہی نہیں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر سیاسی حکمران اقتدار سے پہلے عوام دوست تو ہوتا ہے لیکن اقتدار آنے کی بعد خاموشی یوں اختیار کرنا محض کوئی ایسے شرائط کا عاکسی کرتا ہے جن کی وجہ سے خاموش اقتدار کیلئے رہنا پڑتا ہے۔ نواب خیر بخش مری نے خوبصورتی سے کہا تھا کہ پارلیمانی سیاست بلوچوں کیلئے نہیں ہے جس میں انہیں بے قوف رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بلکل درست ہے کہ 1973 سے لے کر آج تک بلوچوں کو ترقی کے نام پہ کہیں لاشیں ملی ہیں اور اس ترقی سے صوبے میں ہر ایک آنکھ اشکبار ہے۔ ریکوڈیک معاہدہ اور 28 مئی 1998 کے پانچ ایٹمی دھماکے چاغی کی سیاہ دن کی علامت آج بھی ہے۔ ان ترقیاتی اسکیموں سے چاغی سمت بلوچستان کے غریب عوام کو کچھ ملا ہی نہیں ہے۔ دو وقت کی روٹی کیلئے بلوچوں کو بندوق کی گولی ملتی ہے۔ حمید اللہ بلوچ اس کی واضح مثال ہے۔

بلوچ نوجوانوں کے نوکنڈی کی واقعہ پہ مزاحمت کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ اب بلوچ قوم کی ترقی، خوشحالی اور قومی اسلوب نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہیں کیونکہ میر، نواب اور سردار طبقہ سرمایہ داری کی جنگ میں مصروف ہے۔ بلوچ مظاہرین پہ کھلے عام گولی چلانا، بغیر جرم کے شہید کرنا اور روزگار و وسائل چیھننے پہ بلوچ نوجوانوں کی آواز اس غیر آئینی عمل پر اکثر نظر آتی ہے۔ یقناً قومیں دنیا کی نقشے اور تاریخ کی صحفات پہ اس وقت تک زندہ رہتے ہیں جب تک ان قوموں کے نوجوان طبقہ کے درمیان قومی محبت، اسلوب اور قربانی دینے کی صلاحیت پائی جائے۔ اگر نوجوان خوف کے شکار ہوں گے تو ان کا قوم صرف سامراجی تسلط سے نکل نہیں سکتی بلکہ دنیا کے نقشے پہ بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ہے۔ پیغام بنام بلوچ نوجوانوں کے لے یہی ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ناانصافی کے خلاف ہر ممکن آئینی آواز بلند کرے بجائے کہ خاموشی اختار کرے۔ مظلوم کی خاموشی اور خوف ہی ظالم کی طاقت ہے۔ ظالم کو طاقتور بنانے کی بجائے اپنے آپ کو طاقتور اور مضبوط قوم بناو تاکہ کوئی ظلم اور ناانصافی آگے درپیش نہ آئے۔

صوبائی و وفاقی حکومت سے درخواست ہے کہ محصوم حمید بلوچ اور ریت میں پڑی بے بس بلوچوں کو انصاف دو اور یہ غیر انسانی اعمال جو ہمارے محافظوں نے کیے ہیں اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے تاکہ لواحقین کو انصاف مل سکے۔ بلوچوں کے روزگار اور حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ ریکوڈک اور قدرتی معدنیات کے مالک بھوکے نہ مرے۔ انہیں بھی جینے کا حق دو اور دیگر صوبوں کی طرح بنیادی سہولیات بلوچستان کو بھی فراہم کیا جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں