بلوچستان پاکستانی فورسز کے بربریت کی لپیٹ میں ہے۔ماما قدیر بلوچ

491

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے پیر کے روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچ کے جوان بیٹوں کا درد لیے سڑکوں پر در بدر ماؤں، بہنوں کی آہ، آنسو اور چیخوں نے فلک میں شگاف ضرور ڈالے ہیں مگر ظالم حاکم اور جرنیل کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی ،یہ بذات خود ثابت کرتا ہے کہ ریاستی مقتدرہ کی نظروں میں ہم انسان نہیں ہیں ،ہم غلام ہیں-

انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان مفتوحہ علاقہ ہے ،بلوچ وسائل مال غنیمت اور بلوچ نوجوان مفت ہاتھ دست بستہ غلام جن کی زندگیاں آپ کی رحم و کرم پر ہیں ،فوجی جرنیل چاہیں زندگی بخش دیں ،چاہیں موت کے گھاٹ اتار دیں ،لیکن ہمارے نوجوانوں کی قسمت میں عزت و راحت کی موت کہاں لکھی ہے ،پہلے ڈرل مشین سے بدن چھلنی کرتے ہیں ،گدھ کی طرح بدن سے گوشت نوچ لیتے ہیں ، اس حالت موت آجائے تو ایک مسخ لاش میسر آتی ہے اگر بدقسمتی سے اس حالت میں بھی موت مہربان نہ ہوئی تو سالوں زندانوں میں اذیت سہتے ہیں تاوقتیکہ سانسوں کا سلسلہ تھم نہ جائے ۔

انکا کہنا تھا کہ بلوچستان بربریت کی آماجاگاہ بن چکاہے ،ہم پر ہلاکوخان حملہ آور ہے ،ہلاکوخان بغداد پر حملہ آور ہوا توکہتے ہیں کہ اتنے انسان قتل ہوئے کہ دریائے دجلہ و فرات کے پانی کا رنگ لال ہوا ،بلوچستان خشک علاقہ ہے یہاں دریا نہیں بہتے اس لیے یہاں کی سرزمین کی رنگت سرخ ہوتی جارہی ہے لیکن جرنیل مصر ہیں کہ ہم بلوچستان کو خون سے سیراب کریں گے لیکن میں آج حاضرین کے توسط سے جرنیلوں پر واضح کردوں کہ آپ بلوچستان کو بلوچ کے لہو سے سیراب کرسکتے ہیں لیکن وہاں جو فصل اُگے گی اسے کاٹنا آپ کے بس میں نہیں ہوگا بہتر یہی ہے جنگ کو جنگ کے میدان تک محدود رکھیں ناحق بلوچ قوم کو اجتماعی سزا نہ دیں کہ قدرت کے نظام میں دیر سہی مگر اندھیر نہیں ،آج نہیں تو کل آپ کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑے گی –

ماما قدیر نے کہا کہ ہم ریاست پاکستان سے اضافی مراعات و رحم کی اپیل ہرگز نہیں کرتے ہیں ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ آپ قانون ،اپنے آئین ،اپنی عدالت ،اپنے استغاثہ کے ذریعے ہمارے نوجوانوں پر مقدمہ کریں انہیں سزا دیں ،لیکن پوری قوم کو اجتماعی سزا نہ دیں ،مگر لگتا ہے کہ جرنیل صاحب طاقت کے غرور سے اس حدتک پہنچ چکے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ تو کیڑے مکوڑے ہیں انہیں کچلنے سے ان کا بال بھی باکا نہیں ہوگا ،ہم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جناب آپ نے بنگالیوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا-

انہوں نے کہا کہ صرف اسی مہینے کے 13 دنوں کی جبری گمشدگی کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ میں ایک ایک کا نام نہیں لے سکتا ، لیکن میں جو تعداد بتا رہا ہوں یہ گمشدگیاں اس سے کئی زیادہ ہیں۔گذشتہ روز جب میں اس پریس کانفرنس کی تیاری کر رہا تھا اور میں بیشتر مندرجات لکھ چکا تھا کہ رات کو مزید جبری گمشدگیوں کی اطلاع آئی اور نمبر مزید بڑھ گیا۔

اس مہینے کے صرف گذشتہ 13 دنوں میں پاکستانی فوج نے کل 74 لوگوں کو اٹھا کر زندانوں میں منتقل کیا ہے۔صرف کیچ کے مختلف علاقوں سے 30 سے زائد لوگوں اٹھائے ہیں ،پنجگور سے 10 نوشکی سے 8 اسی طرح خضدار ،سبی ،ڈیرہ مرادجمالی ،آواران ، بولان حتیٰ کہ پنجاب سے بھی بلوچوں کو بھی اٹھایا گیا، کون یقین کرتاہے کہ صرف 13 دنوں میں پاکستانی فوج نے ہمارے اتنے بیٹے اٹھائے ہیں ، ہم سے ہماری خوشیاں چھین لی ہیں ۔اب بھی وقت ہے کہ اس فوج کی جنگی جرائم پر اٹھ کھڑے ہوجائیں ،ایسا نہ ہو کل آپ کو اٹھنے کا موقع نہ ملے –

قدیر بلوچ نے کہا کہ 2 فروری کو نوشکے اور پنجگور میں ایف سی پر حملے ہوئے۔ پنجگور میں حملہ آوروں نے 70 گھنٹے تک ایف سی کے کیمپ کو اپنے قبضے میں لیے رکھا۔ جوابا پاکستانی فوج نے عام شہریوں میں جو عتاب نازل کیا ہے وہ اجتماعی سزا کی بدترین مثال ہے-پنجگور میں اس حملے کے دوران جتنے لوگ بھی فوج کے ہاتھ لگے انھیں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دو افراد کو قتل کیا گیا جن میں ایک طالب احتشام سرور کو نہایت قریب سے سر میں گولی مار کر قتل کردیا گیا، ایک ذہنی معذور شخص جو ندیم ابدال کے نام سے شہر میں مشہور تھے انہیں بھی قتل کیا گیا۔ نوشکے میں بھی اس دوران انہیں باہر جو لوگ ملے انہیں حراست میں لے کر ان پر تشدد کیا گیا ، کوئی نماز پڑھنے جا رہا تھا یا اپنے کسی کام کے لیے کسی پر رحم نہیں کیا گیا-

انہوں نے کہا کہ لوپ بالگتر ، گوارگو ضلع پنجگور کے رہائشی 21 سالہ الطاف ولد جاڑا کو جنہیں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے تجابان سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا ، فوج نے قتل کے بعد میں سرمچار ظاہر کیا ، ان کے والدین نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے انصاف کی اپیل کی ہے، لیکن شاید کسی نے وہ آواز آج تک نہیں سنی ہوگی-اور اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ضلع آواران کے علاقے تیرتج میں دو بھائی محمد علی ولد دینار اور عبدالواحد ولد دینار کو فوج نے حراست میں لیا اور کیمپ لے جاکر ان پر شدید تشدد کیا جس سے بڑے بھائی محمد علی کی موت واقع ہوگئی جبکہ عبدالواحد کو نیم مردہ حالت میں پھینک دیا گیا۔ اس پر ستم یہ کہ محمد علی کی لاش بھی ٹریکٹر کے ذریعے گڑھا کھود کر دبائی گئی ، ان کے لواحقین کو لاش بھی نہیں دی گئی تاکہ انھیں مذہبی رسومات ادا کرکے کفن پہنا کر دفن کرسکیں۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ حمید زہری کی فیملی جو یہاں موجود ہے ، حمید زہری کو 10 اپریل 2021 کو کراچی سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے، فیملی تب سے مسلسل احتجاج کر رہی ہے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہو رہی-

ماما نے کہا کہ جیسا کہ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج نے جان بوجھ کر وہاں کے اہل دانش کو جو کہ مسلح مزاحمت کا حصہ نہیں تھے بڑی تعداد میں قتل کیا تاکہ بنگالی قوم کو شعور سے محروم کیا جاسکے اسی طرح بلوچستان میں سب سے زیادہ طالب علم اور پڑھے لکھے طبقے کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالیہ ہفتوں میں بھی تین سے زائد اساتذہ اور بڑی تعداد میں طلباء کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔جن میں 8 فروری کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ کیے جانے والے قائداعظم یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ بھی شامل ہیں ، جنہیں خضدار سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔

آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان گمشدگیوں کے خلاف انسانی حقوق کے علاقائی اور عالمی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور بلوچ بھی اپنے جگر گوشوں کی گمشدگی پر مزید خاموش تماشاہی نہ رہیں بلکہ ان کے لیے آواز اٹھائیں۔