شہدائے شور پارود ۔ میرجان میرو

610

شہدائے شور پارود

تحریر: میرجان میرو

دی بلوچستان پوسٹ

جب بلوچستان پر جبری قبضہ ہوا تو بلوچوں نے غلامی کو قبول کرنے کے بجائے اپنے سرزمين کو آزاد کرنے کیلئے جنگ کا اعلان کیا اور پہاڑوں کو اپنے مورچہ بناکر دشمن کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا اور ایک آزاد ملک کو اپنا غلام بنایا، بلوچستان کے تمام معدنيات کو لوٹ مار کر کے پنجاب کو آباد کیا گیا اور لاکھوں بلوچوں کو شہید اور کئی کو لاپتہ کر کے اپنے زندانوں میں ڈال دیا گیا۔ متعدد فوجی آپریشنوں میں ہزاروں گھروں کو جلایا اور مال مویشی کو لوٹا گیا۔

1948ء سے لے کر2021 ء تک بلوچوں نے غلامی کے خلاف جنگ کی جب 1973 کے دور میں گوریلا جنگ مضبوط ہوئی تو اکثر سرمچاوں نے قلات میں شُور کے پہاڑوں کی طرف رخ کیا اوراپنے مضبوط مورچوں سے دشمن کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ 73 کے بعد جب سن دو ہزار میں ایک دفعہ پھر آزادی کے جنگ کا آغاز ہوا تو اکثر بلوچوں نےاپنے زندگی کے سارے عیش و عشرت چھوڑ کر آزادی کے جنگ میں شامل ہوگئے۔

بلوچستان پہاڑوں کے لحاظ سے بہت مشہور ہے جب بھی بلوچوں نے جنگ کا آغاز کیا تو پہاڑوں کی طرف رخ کیا ان پہاڑوں میں شور کے پہاڑ بھی نمایاں ہیں۔ ان پہاڑوں میں بلوچوں نے 1973 سے لیکر2021 تک کئی جنگین لڑی اور دشمن کو کئی بار شکت کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں کئی سرمچاروں نے اپنے سرزمین کی آزادی کیلئے شہادت قبول کی۔ قابض ریاست نے کئی بار فوجی آپریشن میں مقامی لوگوں کو بھی ظلم ڈھا کر نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا اور اپنے کرائے کے لوگوں کو یہاں آباد کیا۔ لوگوں کو بلوچ قومی جنگ کے خلاف استعمال کرنے کیلئے یہاں کے نام نہاد سردار، میر اور نوابوں کو اپنے مفادات کیلئے غریب لوگوں کو سرمچاروں کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں کی گئی۔

یہاں میں شہید کامریڑ گنجل عرف مزار، شہید ریحان عرف مہروان، شہید کلیم اللہ عرف بولانی، شہید ایڈووکیٹ نودان عرف حمل، شہید نزیر عرف سنگر، شہید فیصل عرف یاسر کے بارے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ بلوچ قومی تحریک میں بے مثال کرداروں کے مالک جہد کار تھے۔

24 ستمبر بلوچ تاریخ میں ایک عظیم دن کی حیثیت سے یادگار رہیگا کیونکہ اس دن چھ بہادر سرمچاروں نے اپنے سرزمین کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت قبول کیا۔ آپ لوگوں کی شہادت یقیناً ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن شہادتیں ہی قومی تحریک کو مضبوط کرتے ہیں آپ لوگوں کی شہادت بلوچ قوم کے نوجوانوں کو مسلح جدوجہد کی طرف راغب کرتا رہے گا۔ بلوچ تاریخ میں ایسے ہزاروں سرمچاروں کے داستان ہیں کیونکہ یہ بہادر اپنے سرزمین کے عاشق ہیں، ان لوگوں کی منزل آزادی ہے اور مقصد شہادت ہے۔ بلوچ نوجوان اب بھی اپنے زندگی کے سارے خواہشات چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ اب قلم اور کتاب کے ساتھ بندوق اٹھا رہے ہیں کیونکہ نوجوانوں کو پتہ ہے کہ بندوق کی گولی کو بندوق کی گولی سے ہی خاموش کیا جاسکتا ہے۔

چوبیس ستمبر کی رات دشمن کے کرائے کے بندوق برداروں اور ایس ایس جی کمانڈوز نے سرمچاروں کے کیمپ کو گھیرنے کی کوشش کی تو صبح 5 بجکر 40 منٹ پر جھڑپ کا آغاز ہوا۔ پہرے کے فرائض انجام دینے والے کامریڈ گنجل مزار اور شہید ریحان مہروان نے دشمن کی پیش قدمی روکنے کیلئے مورچہ بند ہوکر پہلی گولی چلائی۔ اسی کیساتھ طویل جھڑپ کا آغاز ہوا، اس دوران دوسری جانب شہید کلیم بولانی اور شہید نودان حمل نے دشمن کے لیے دوسرا موچہ سنبھالا، شہید نزیر سنگر ایک حادثے میں پیر سے معزور تھے، اس وقت اسکا علاج چل رہا تھا جس کے باعث وہ چل نہیں سکتا تھا، شہید سنگر نے کیمپ کے اندر ہی اپنا مورچہ سنبھال لیا جبکہ شہید یاسر بھی آپ کے ساتھ کھڑے رہے آپ لوگوں نے دشمن کا گھیرا توڑ کر باقی ساتھیوں کو کامیابی کے ساتھ باحفاظت نکالنے اور اپنے لیے شہادت کے راستے کا انتخاب کیا۔

چار گھنٹے سےجاری دو بدو لڑائی میں دوستوں نے دشمن کے درجن سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کیا جبکہ چھ جانباز سرمچار دشمن کا گھیرا توڑ کر باقی ساتھیوں کو کامیابی کے ساتھ باحفاظت نکالنے کے بعد اپنے لیے شہادت کے راستے کا انتخاب کیا اور تین جگہوں پر دشمن کے خلاف مورچہ بند رہے۔ شہید کلیم بولانی اور شہید نودان حمل کے بندوق کی گولیاں ختم ہوئیں تو آپ دونوں نے اپنے لیے آخری گولی کے عظیم فلسفے کا انتخاب کرتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں گرفتاریاں دینے کی بجائے اپنی آخری گولیاں خود ہی اپنے جسم میں اتار دی اور شہادت کے عظیم مرتبت پر فائض ہوئے۔

شہید کلیم بولانی جنگی صلاحيتوں کے مالک شخصيت تھا، آپ ہر وقت جنگی حکمت عملی کے بارے دوستوں کو مشورہ دیتے رہے اور کیمپ کے سارے کام کی خود ذمہ داری لیتے رہے اور شہید ایڈووکیٹ نودان حمل نے بلوچی زبان میں ماسٹرز کے بعد LLB میں ماسٹرز کیا۔ آپ ایک تعلیم یافتہ اور ایک قابل وکیل تھے لیکن آپ نے پاکستانی عدالتوں کو اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اور اپنے قوم کے ماوں بہنوں کو کوئٹہ کے سڑکوں پر آئے روز شدید سردی میں روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے اور آپ نے اپنے زندگی کے سارے خواہش قربان کر کے آزادی کے جنگ میں شامل ہوئے۔

شہید کامریڈ گنجل مزار اور شہید مہروان آپ دونوں اپنے کیمپ کے دفاع کرتے رہے اور دشمن کے خلاف بہادری سے مقابلہ کیا اور اپنے دوستوں کو باحفاظت نکالا، کامریڈ گنجل ایک سیاسی لیڈر اور ایک گوریلا کمانڈر تھے آپ اپنے زمانہ طالب علمی میں بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم پر اپنے سیاست کا آغاز کیا آپ نے لیاری اور کراچی کے کونے کونے میں سیاست کی، آپ کے مخلصی اور ایماندای کے وجہ سے آپ کو بی ایس او کے سنٹرل کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ جب بلوچسان کے حالات بہت خراب ہوئے ریاست نے سیاست پر پابندی لگائی اور آپ کے بہت سے ساتھيوں کو شہید کیا اور کچھ کو زندان میں بند کردیا، بہت سے ساتھی اپنی زندگی بچانے کیلئے دوسرے ملک چلے گئے لیکن آپ اپنے سرزمین کے عاشق تھے آپ نے ظلم کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر خاموشی کی بجائے ظلم کے خلاف آپ نے بندوق اٹھایا، آخری دم تک مخلصی اور ایمانداری سے لڑتے رہے۔ جب تنظیم نے آپ کو کمانڈر کا عہدہ دیا تو آپ نے اپنے سپاہیوں کو سیاسی اور گوریلا حکمت عملی کے بارے میں تربیت دی۔

شہید ریحان مہروان آپ ایک خاموش اور خوش اخلاق سپاہی تھے آپ نے ایک سال کے اندر بہت سے تنظيمي مشن کو سر انجام دیا اور آپ اکثر تنظيمی کاموں کی خود ذمہ داری لیتے رہے۔

شہید یاسر اور شہید سنگر آپ دونوں اچھے دوست تھے، آپ دونوں نے ایک ساتھ گوریلا جنگ میں شموليت اختیار کیا شہید سنگر ایک حادثے میں پاوں سے معزور ہوگئے تھے۔ ایک پاوں سے معزور ہونے کے باوجود آپ نے ہر قسم کے درد اور تکليف برداشت کیا اور اپنے دوستوں کو حوصلہ دیتے رہے، آپ ایک حوصلہ مند اور بہادر جنگجو تھے۔ شہید یاسر کو دشمن نے جب شہید کیا تو اس کو پتہ چلا کہ یہ 18 سال کے بہادر نوجوان نے کتنے بہادری سے مقابلہ کیا اور اپنے باقی دوستوں کو دشمن کے گھیرے کو توڑ کر نکالا اور آپ نے شہید سنگر کو بچانے کے بہت کوشش کی لیکن دونوں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

شہید یاسر آپ کی قربانی نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہے آپ نے اپنی جوانی میں اپنے سارے خواہشات کو قربان کر کے پہاڑوں کے طرف رخ کیا اور آپ نے اپنے آپ کو ایک بہادر سرمچار ثابت کردیا آپ آخر سانس تک اپنے موقف پر برقرار رہے۔

آپ لوگوں کی قربانیوں کی بدولت دنیا میں آزاد بلوچستان کا پرچم لہرے گا۔ شُور کے پہاڑ آپ کے بہادری کی گواہی دیتے رہینگے۔ آپ لوگوں کے بندوق کے گولی کی آواز شور کے ہر کونے میں سنائی دیتی رہے گی، تاریخ میں آپ لوگوں کے بہادری کی داستان ہمیشہ قائم رہے گی آپ لوگوں کی قربانی آنے والے نسلوں کو غلامی کی زندگی سے بچائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں