جامعہ بلوچستان سے طلباء کی جبری گمشدگی، بلوچستان بھر میں تعلیمی ادارے بند

388
{"source":"other","uid":"99F48B80-9EB5-4994-9353-C894D0BFC3BE_1636987861329","origin":"gallery","is_remix":false,"used_premium_tools":false,"used_sources":"{"version":1,"sources":[]}","premium_sources":[],"fte_sources":[]}

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قائم جامعہ بلوچستان سے گذشتہ دنوں جبری طور لاپتہ دو طالب علموں کی عدم بازیابی کےخلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

جامعہ بلوچستان اور کوئٹہ میں تعلیمی اداروں کی احتجاجاً بندش کے بعد مرحلہ وار احتجاج کے سلسلے میں آج تربت، موسیٰ خیل،نوشکی، زہری، خضدار، لورالائی، دالبندین، اوستہ محمد، قلعہ سیف اللہ سمیت دیگر علاقوں میں کالجوں اور اسکولوں کو بند کردیاگیا ہے۔

طلباء تنظیموں کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں گذشتہ دو ہفتوں سے طلباءاپنے ساتھی طالبعلموں کی گمشدگی کے خلاف احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہیں لیکن اب تک لاپتہ طالبعلموں کو منظر عام پر نہیں لایاگیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ لاپتہ طالبعلموں کی عدم بازیابی کے خلاف طلباء تنظیموں کی جانب سے آج 24اکتوبر کو صوبائی دارالحکومتسمیت بلوچستان بھر میں جامعہ،کالجز،پروپیشنل اور نن پروفیشنل تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیوں کا مکمل بائیکاٹ کرکے بندکیا گیا ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ جہاں پر بھی انتظامیہ کی جانب سے بائیکاٹ کو ناکام بنانے یا بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی توکسی بھی ناخوشگوار واقع کا ذمہ دار اس ادارے کا سربراہ و انتظامیہ ہونگے۔

خیال رہے دونوں طالب علموں سہیل بلوچ اور فصیح اللہ کو یکم نومبر بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ ہو گئے تھے، جس کے بعد طلباتنظیموں نے احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے یونیورسٹی کو تمام سرگرمیوں کے لئے بند کردیا تھا