ریڈ زون، لٹا قافلہ اور ننھی پری – منظور بلوچ

399

ریڈ زون، لٹا قافلہ اور ننھی پری

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ کس کی آواز ہے؟ کون انصاف مانگ رہا ہے؟ کس سے مانگ رہا ہے؟ فاطمہ کون ہے؟ ایک چھوٹی سی بچی ہے، لیکن وہ ریڈ زون تک کیسے پہنچ گئی؟ یہ لمبا سفر کس نے طے کیا تھا؟ یہ پانچ بوڑھے کون تھے؟ جہنوں نے پاؤں میں سواس پہن رکھی تھی؟ ہوشاب کہاں ہے؟ یہیں کہیں نقشے پر ہوگا؟ سریاب روڈ کیوں بند ہے؟ ریڈ زون کے ہر طرف باڑھ کس نے لگائی ہے؟ رکشہ ڈرائیور پوچھ رہا تھا۔

جمہوری بچے کہاں ہیں؟ زبان دراز جمہوریت کے وفا دار کہاں ہیں؟ حاکم ڈرے سہمے ہیں ان کے وفادار وزیر کبیر کہاں ہیں؟ وفاداروں پر یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟ فاطمہ بلوچ تو ایک چھوٹی سی بچی ہے، پیاری سی، گڑیا جیسی۔

اس کے جب نعرے گونجتے ہیں تو جمہوریت کے وفادار اپنے بنگلوں میں کیوں سہمے جاتے ہیں؟ ان کے حلق سے تر نوالہ کیوں نگلا نہیں جاتا۔یہ کون ان پڑھ، جاہل لوگ ہیں؟ جو ایک لمبی مسافت طے کرکے کہیں اور نہیں سیدھے ریڈ زون تک پہنچے ہیں۔

کیا جمہوریت کے گاڈ فادر اپنی آپس کی جنگ بھول گئے ہیں؟ ان کا وائسرائے ریڈ زون کے ساتھ والے تھڑے پر بیٹھا اس شام کیا کر رہا تھا؟ جب ننھی فاطمہ ہنس کھیل رہی تھی. وائسرائے کو معلوم نہ تھا کہ یہ چھوٹی سی بچی اسمبلی اور سیاست کو نہیں جانتی. اس عمر میں اسے بھلا کیا معلوم کہ سبز ٹینکی کی سیاست کیوں ہوتی ہے؟ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ترقیاتی سکیموں پر از منجانب عطیہ لکھنے والے اپنے کا بیس فیصدی حصہ تو ایڈوانس میں لے بھی چکے ہوتے ہیں، پھر بھی جمہوری بچے ترقیاتی سکیموں کی کریڈٹ پر لڑتے ہیں۔

سابقہ جمہوریت کے لاڈلے اب بھی اصرار کرتے ہیں کہ یہ سارے ترقی کے کام ان کے دور میں ہوئے تھے، اور وہ لڑ رہے ہیں۔ 2018 کے بعد کے جمہوری بچے ان پر اپنا حق جتا رہے ہیں۔ لیکن مصیبت تو وائسرائے پر آچکی ہے۔اسمبلی میں تو کچھ اور چل رہا ہے. فاطمہ کو نہیں معلوم سارا چکر کیا ہے؟ وہ پھر گھوم گھام کر ایک آدھ نعرہ جڑ دیتی ہے. جمہوریت کے وفاداروں کی نیند اڑ جاتی ہے. نیند سے جاگتے ہیں، تو نوکر، چاکر ان کو تسلی دیتے ہیں کہ آپ اپنے بنگلے، اپنے کمرے کے بیڈ رومز پر موجود ہیں. باہر کیا چل رہا ہے؟ ہوا چل رہی ہے آقا، اور کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔

جمہوریت، جمہوریت، ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والے کیوں پریشان ہیں؟ وہ سہمے ہوئے کیوں ہیں؟ کیا افتاد ان کی دہلیز تک پہنچ چکی ہے؟ اسمبلی کا ڈاکٹر آتا ہے، جمہوریت کے طبیب کے ساتھ وہ جمہوری وفادار کا نبض چیک کرتے ہیں، کچھ بھی تو نہیں. ڈاکٹر اور طبیب ساتھ ساتھ چلاتے ہیں، تھوڑا سا فشار خون بلند ہوگیا ہے. یہ نیند والی گولی کھالیں. طبیب کہتا ہے میں نے اچھی سی پکی بنائی ہے، جو آپ کے شوگر کو نارمل کر دے گی، باہر موسم اچھا ہے، خزاں میں پت جھڑ ہو رہی ہے، خنک ہوائیں چل رہی ہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔

شہر کے لوگ؟ جمہوریت کا دانش ور پوچھتا ہے، ڈاکٹر اور طبیب اکھٹے بولنے لگتے ہیں، شہر کے لوگ خوش و خرم ہیں، بازاروں میں چہل پہل جاری ہے، رات کو ماشاء اللہ ہوٹل پر پکنک والوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں ہٹے کٹے لوگ، تنو مند جوان بدیسی گانے سن رہے ہیں، جھوم رہے ہیں، ان کے ہاتھوں میں مشروب ہے، وہ مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھانے جا رہے ہیں. جمہوریت کا چمپئن بے یقینی کے عالم میں پوچھتا ہے، سائیں کہاں ہے؟ اس کو کچھ پتا ہے؟ جمہوریت کا طبیب کہتا ہے، سائیں، خان، رئیس، پنڈت سارے خوش ہیں، اپنے اپنے علاقوں میں ہیں، کوئی کسی وادی کو نکل گیا ہے، کوئی کسی بیرون ملک میں رات کی چاندنی جیسی روشنیوں میں ڈوبے شہر کی سیاحت کو گیا ہے.

لیکن آپ کیوں پریشان ہیں؟

پھر ڈاکٹر اور طبیب، اپنے نصف درجن مصاحب کے ساتھ لان میں بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں، ایک بولتا ہے کہیں صاحب کو سر سام تو نہیں ہوگیا، ایک مصاحب بتاتا ہے۔آج وہ پہلی بار بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے، گھر میں سبھی پریشان ہیں، ڈاکٹر استفسار کرتا ہے، صاحب نے لنچ میں کیا کھایا تھا، دوسرا مصاحب، جو غالباً باورچی ہے، کہتا ہے آجکل صاحب پرہیزی کھانا کھانے لگے ہیں، وہ بغیر نمک، بغیر گھی کے شلجم کھاتے ہیں، لنچ میں بھی شلجم، ڈنر میں بھی شلجم، طبیب خوش ہوتا ہے۔ شلجم، واہ، واہ۔۔۔ کیا اکسیر دوا ہے۔ یہ تو سب سے بڑا علاج ہے، خانساماں بات کو آگے بڑھاتا ہے، ایک ہفتہ قبل صاحب نے شلجم کی کئی بوریاں منگوالی تھیں۔ ڈاکٹر سوچ میں پڑ جاتا ہے، اس کے چہرے پر کچھ پریشانی کے آثار ہیں، ماتھے پر تشویش کی کچھ پسینے کی بوندیں ہیں، طبیب کو مخاطب کرتا ہے، شلجم میں تو شکر ہوتی ہے نا، اس سے ہوسکتا ہے کہ صاحب کا شوگر بڑھ گیا ہو۔

لیکن تیسرا مصاحب کہنے لگتا ہے، شوگر چیک کیا گیا ہے، ٹھیک ہے، فکر مند ہونے والی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر پرچی پر دوائیاں لکھ رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ ہدایات بھی دے رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے صاحب کہیں ریڈ زون تو نہیں گئے تھے، ہاں، ہاں ایک رشتہ دار چلا کر نمایاں آواز میں بولتا ہے۔ ڈاکٹر کو پھر تشویش لاحق ہوتی ہے، وہاں صاحب کو جانا نہیں چاہیے تھا، خیر میں معلوم کرتا ہوں، کس سے؟ کچھ آوازیں بیک وقت بول رہی ہیں۔ میں داروغہ شہر سے پوچھتا ہوں۔ ایک آواز آتی ہے، کسی صحافی سے، میرا مطلب ہے سینئر صحافی سے پوچھ لینا، جو تجزیہ کرنے کا ماہر ہو، لیکن ایک فکر مند نوکر کہتا ہے لیکن وہاں تو کوئی سینئر صحافی موجود نہیں تھا۔

خبر گیری رکھنے والا، پڑھا لکھا نوجوان، جو صاحب کے دفتری امور نمٹاتا ہے، کہتا ہے، آجکل سارے سینئیر صحافی، ایتھنز میں ہیں، میرا مطلب اسلام آباد میں ہیں۔ ہاں، ہاں ایتھنز میں پہلی جمہوریت قائم ہوئی تھی۔
ڈاکٹر استفسار کرتا ہے، سینئر صحافی اسلام آباد میں کیا کر رہے ہیں؟ خبر گیر کہتا ہے، وہ کوئی میڈیا اتھارٹی قائم ہونے جا رہی ہے، اس کو وہ سیاہ قانون کہتے ہیں، اس کے خلاف ان کی اکٹھ ہوئی تھی۔ سیاہ قانون۔۔۔۔ اور پھر ریڈ زون سے فاطمہ، ننھی منی چڑیا، نعرہ لگاتی ہے، سیاہ قانون۔

ڈاکٹر ہڑ بڑا جاتا ہے، مجھے فوراً داروغہ شہر کے پاس جانا ہوگا، طبیب بھی اپنا تھیلا اٹھاتا ہے، مجھے ابھی جاکر فقیہ شہر سے ہنگامی میٹنگ کرنا ہوگی۔

کیوں؟ صاحب کے فکر دامن گیر پوچھتے ہیں، آخر ہمارے شہر میں ہو کیا رہا ہے؟

داروغہ شہر کے دفتر میں ہلچل ہے، لوگ متحرک ہیں، ٹی وی کی اسکرینیں روشن ہیں، لیکن وہاں ایسا تو کچھ بھی نہیں، وہاں شاہ رخ کے بیٹے آریان خان کے خلاف منشیات کے مقدمے کا چرچا ہے، طرح طرح کے لوگ آ رہے ہیں، کبھی ٹیلی فون، کبھی موبائل کالز کی گھنٹیاں شور مچاتی ہیں، دفتر میں اچانک لخطہ بھر کیلئے خاموشی ہوتی ہے، اسمبلی کا معالج اپنے آپ کو کمفرٹ زون میں محسوس کرتا ہے ۔

فقیہ شہر، بھی صاحب کی طرح مغموم ہے، پتہ نہیں یہ جاہل گنوار کہاں سے اٹھ کر آجاتے ہیں، ان کے پاؤں دیکھو، غیر مہذب، جنگلی، ان کے پاؤں میں ٹھیک طرح کی چپل بھی نہیں ہے، اور آئے ہیں یہاں ہمارا سکون برباد کرنے۔

اسمبلی کا معالج بتاتا ہے، جی ہاں، کچھ عرصے سے ہمارا ویسے ہی سکون غارت ہو چکا ہے۔

شہر کا دورغہ اپنے موبائل کی اسکرین پر دیکھتا ہے، کال آ رہی ہے، کال کسی جمہوری سردار کی ہے، وفا دار سردار بھی پریشان ہے، وہ داروغے کو ڈانٹ پلا رہا ہے، اور داروغہ ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے، وفادار سردار کو پتہ چلتا ہے، کہ یہ سب کچھ اس کی نا اہلی کی وجہ سے ہو رہا ہے، وہ دن میں سبز چائے پینے کے بعد قیلولہ کرتا ہے، دن میں دربار لگاتا ہے ۔اپنے نو رتنوں کے ساتھ لطیفے سناتا ہے، اسے شہر کی کچھ بھی پرواہ نہیں، آخر کو شہر اب پچیس تیس لاکھ لوگوں کی آبادی کا شہر ہے۔ وفادار سردار کی نالائقی کی وجہ سے چند لوگ شہر میں آگئے ہیں، سارا نظام چوپٹ ہوگیا ہے، شہر میں پہلے ہی سے چار سڑکیں ہیں، ایک سریاب روڈ کو بند کرنے کی وجہ سے ہزاروں موٹر گاڑیوں والوں کو تکلیف ہو رہی ہے، اور وفادار سردار اپنے محل نما گھر میں بیٹھا بے پرکی ہانک رہا تھا۔

جمہوریت، نئے عمرانی معاہدہ، حقوق، پی ایس ڈی پی، ایم پی اے فنڈ کیلئے پریشان سرداران وفاداری کو کچھ کرنا چاہیے۔

سردار وفادار کہتا ہے، یہ ذمہ داری تو ہوشاب والے جمہوری اور سچے عوامی نمائندے کی ہے، آخر وہ عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہوا ہے، اس کو چاہیے تھا کہ وہ ہمارے شہر کے سکون کو برباد ہونے سے بچا لیتا۔ لیکن ایک سیاسی دماغ رکھنے والا کارکن، جو رئیس کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، سردار وفا دار بھی ہے، اپنا غصہ، اسی ووٹ لینے والے عوامی نمائندے پر اتارتا ہے، وہ کھنکھارتا ہے، اپنا گلہ صاف کرتا ہے، کہتا ہے، جناب وہ تو پی ایس ڈی پی کے خلاف مورچہ بنانے میں مصروف ہے، اسے شہر کے عوامی معاملات سے کیا دل چسپی ہو سکتی ہے۔
اسمبلی کے سب سے بڑے مکھیا کو چاہیے کہ وہ اپنے دائیں اور بائیں کے وزیر و کبیروں کو ساتھ لے کر معاملات نمٹاتے، لیکن وہ پریشان ہے، اس کے اپنے وفا دار اس کے خلاف ہو گئے ہیں، ان کو شہر کی اب کوئی پرواہ نہیں رہی، سرداران وفا دار کہتا ہے، ہم تو پہلے سے کہتے چلے آ رہے تھے کہ اس آدمی کی بس کی بات نہیں ہے، اس کو تبدیل ہونا چاہیے، سبھی کا مساوی کا حق ہے، کیا ضروری ہے کہ وہ پانچ سالوں تک اس شہر کا سکون برباد کرتا رہے۔

رئیس کی پارٹی البتہ خوش ہے، 2023ء میں شو کی کامیابی اب ہمارے ہاتھوں میں ہے، لیکن وہاں بھی حاضر دماغ کارکن موجود ہے، جو ابھی سردار وفادار کی کچہری سے اٹھ کر یہاں پہنچا ہے، لیکن رئیس صاحب، لوگ بہت خفا ہیں، وہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں، ہم کیسے شو میں کامیاب ہونگے، رئیس پریشان ہو جاتا ہے، کہتا ہے کل میں اس کا حل نکالوں گا۔

جمہوریت کے سارے پہلوان اکٹھے ہیں، خوش و خرم ہیں، روزانہ ایک نئی چال چلی جا رہی ہے، لیکن پھر اچانک خاموشی کا موقع آ جاتا ہے، فاطمہ ان سارے معاملات سے، جمہوریت سے، جمہوریت والوں سے بے نیاز ہو کر پھر ایک نعرہ لگا دیتی ہے، ہوا میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے، ٹی وی کی سکرینیں روشن ہیں، لیکن وہاں کوئی فاطمہ نہیں ہے، ایک وین ہے، جس میں سے ماسک لگائے، ٹوپی والا جیکٹ پہنے آریان خان کو پھر دکھایا جاتا ہے، تبصرہ جارہی ہے، شاہ رخ خان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، آریان خان 23 سالہ بچہ ہے، ارے پاگلو، چند گرام چرس کوئی اتنا بڑا معاملہ ہے، ہمارے ہاں، تو شہر کے ہر گلی، محلے میں کلو گرام کے حساب سے چرس ملتا ہے، ہوٹلوں میں بھی یہ دستیاب ہے، مسئلہ چرس کا نہیں، امتیاز کا ہے، شاہ رخ خان بالی وڈ کا کنگ ہے، اس کو ناکام بنانے کی سازشیں ہو رہی ہیں، کیونکہ وہ مسلمان ہے۔

جمہوری بچے اسکرینوں پر کچھ اور دیکھ رہے ہیں، وہ سب کچھ جو سیٹھوں کے چینلوں پر نظر نہیں آتا، سہمے ہوئے جمہوری بچے، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے دھوبی گھاٹ پہنچے ہیں، حاضر دماغ کارکن کہتا ہے، مریم نواز سارے نظام کو چوپٹ کرکے رکھ دے گی۔ لیکن ہمارے شہر کی جمہوریت نواز پارٹیاں وہاں کیا کر رہی ہیں؟ اس کا جواب کسی سیاسی مکھیا کے پاس نہیں۔
چند لوگوں کا قافلہ اب آگے کہاں جائے گا؟ اس کی اگلی منزل کونسی ہوگی؟ جمہوریت والے صاحب کو کچھ لمحے کیلئے افاقہ ہوا ہے، اس نے نیند کی گولی کھا لی ہے۔ طبیب اس کیلئے نئی پکی بنا کر بھجوا بھی چکا ہے، ڈاکٹر صاحب آئے ہیں، لیکن صاحب کے آرام میں مخل ہونے کو پسند نہیں کرتے ہیں، اور چلے جاتے ہیں۔
شہرکے لوگ، سوشل میڈیا پر مصروف ہیں، لگتا ہے سوشل میڈیا پر کوئی انقلاب برپا ہو چکا ہے، ہر کوئی من مانے کمنٹس کر رہا ہے، من مانی پوسٹ کا سلسلہ جاری ہے۔

سائیں، رئیس، خان اور کابل والے حقانی طالبان کے استاد ہمارے اس شہر میں بھی ہیں اور دھوبی گھاٹ پر بھی، کیونکہ مسئلہ ہے جمہوریت کا۔ جمہوریت جو سب سے عظیم الشان ہے۔ جمہوریت جو حقوق کی ضامن ہے، جمہوریت مساوات لاتی ہے۔ جمہوریت انسان کی سب سے اعلی دریافت ہے۔

خان، رئیس، طالبانی استاد اور سائیں دھوبی گھاٹ پر بھی اعلان کر رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، کیونکہ ہر درد کی دوا ووٹ ہے، ووٹ ہے تو ہم ہیں، ووٹ ہے تو یہ نظام ہے، ووٹ ہے تو خوشحالی ہے، ووٹ صرف پنجابی کی نہیں، بلوچ کی بھی ضرورت ہے، سندھی اور پشتون کی بھی ہے۔

ساتھ ساتھ ان بڑی ہستیوں کے درجہ دوئم کے جمہوری لیڈر بھی مصروف ہیں، اور ڈائریکٹر پریشان ہے، کیونکہ مکھیا کو بدلنے پر زور دیا جا رہا ہے، پہلے پہل، ایک گرین سگنل دیا جا چکا ہے کہ عظیم الشان جمہوریت کی خاطر مکھیا کو بدلنا پڑے گا، اس کی ایک وجہ سقوط کابل بھی تھا، اور اب بھی کابل سکوت کے عالم میں ہے، طالبانی اقتدار کی وجہ سے ان کے استاد کو بلوچستان کی سرکار میں لانا نظام کی ضرورت ہے۔ نظام کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ سکرپٹ میں کچھ اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس سے قبل بھی تو ریہرسل کروائی گئی تھی، ڈائریکٹر ان سبھوں کو ڈانٹ پلا چکا ہے، جو اپنے ڈائیلاگ عین موقع پر بھول جاتے ہیں،زبان دراز جمہوری دانش ور خواب دیکھ رہا ہے، وہ اپنے دوستوں اور مصاحبوں کو بتا رہا ہے، کہ یہ کیا ظلم نہیں ہے کہ میں سب سے اچھی تقریر کر سکتا ہوں، رہی بات اشرافیہ کی، تو میں جب سیاست میں آیا تو کھنگال تھا، لیکن اب خیر سے، میں اشرافیہ کا حصہ ہوں، ارب پتی ہوں، میری کوالیفکیشن ہر لحاظ سے پوری ہے، مجھے اب بھی مکھیا اگر نہیں بنایا جاتا، تو کیا یہ ناانصافی نہیں ہوگی۔

ڈائریکٹر سوچ میں ہے، استفسار کرتا ہے کہ اگر موجود مکھیا کو ہٹایا گیا، تو آنے والے مکھیا کو بھی ہٹایا جاسکے گا، ایسے میں ایک اور حاضر دماغ جمہوریے استدلال کرتا ہے کہ دو سال ہی تو ہیں، تین سال ایک مکھیا کیلئے کافی ہیں، اس نے جتنا موج میلہ کرنا تھا، کر لیا، اب دوسروں کو بھی موقع دینا چاہیے۔

ڈائریکٹر کہتا ہے، سوچنا پڑے گا، لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر اسکرپٹ تبدیل کرنا پڑے گا۔

ایسے میں ریڈ زون سے جہاں ناکو محراب بیٹھا ہے، ایک بار پھر ننھی پری فاطمہ بلوچ کے فلک شگاف نعرے گونجتے ہیں، جمہوری کھیل کے سارے کردار پھر سہم جاتے ہیں، ڈائریکٹر کی پیشانی پر بھی پسینے کی ننھی بوندیں صاف دکھائی دے رہی ہیں، ایک حاضر دماغ جمہورا کارکن عجلت میں کہتا ہے کہ آج کی میٹنگ ختم کرنی چاہیے، کیونکہ ایسے بہت سارے ہیں، جن کے فشار خون بڑھنے کا مسئلہ ہے۔

جمہوریت عظیم الشان ہے، جمہوریت آج کے دور کا سب سے بڑا دیوتا ہے، اس کو ماننا ہوگا، یہ نظام بھی دیوتا ہے، اس کی طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا، لیکن یہ کیا، ننھی پری، ریڈزون پر، ناکو محراب اس کی جانب دیکھ رہا ہے، وہ مائیک میں اعلان کرتی ہے، اٹھکیلیاں کرتی ہوئی کہ جمہوریت آئی کب ہے؟ اور پھر بے نیازی سے یہاں سے وہاں ہوشاب کے مسافروں کے درمیان گھومتی ہے۔
فقیہ شہر، داوروغہ شہر، سبھی پریشان ہیں کیونکہ عظیم الشان جمہوریت ویسے تو چار حصوں میں بٹ چکی ہے، جی ٹی روڈ کی سیاست، راجہ بازار کی، آب پارہ کی، بنی گالہ کی۔ لیکن یہ کیا ہمارے شہر میں یہ قافلہ کیسے پہنچا۔ چند لوگ سارے کے سارے انپڑھ، پھٹی پوشاک کے ساتھ، دو بچوں کی لاشیں لئے، اب یہ پانچواں سیاسی میدان ہے۔ جی ٹی روڈ کا احوال تو وجاہت مسعود سے ملے گا، وہ زیرک لکھاری ہے، راجہ بازار کا شیخ رشید آجکل چپ اور گم سم ہے، آب پارہ کا شاہ محمود قریشی بھی کچھ سوچنے، سمجھنے سے بیگانہ نظر آتا ہے، بنی گالہ کی خبریں تو ہارون رشید کے باعث سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن یہاں ہمارے شہر میں، یہ نیا لٹا قافلہ ناکو محراب کی سربراہی میں آ چکا ہے، چند لوگ ہیں، لیکن نہ جانے کیوں اسمبلی کے راجے، مہاراجے، سارے پریشان ہیں، سہمے ہوئے ہیں، ننھی پری کی آواز گونجتی ہے، ان سب کو بخار ہونے لگتا ہے۔

اسمبلی کا ڈائریکٹر کہتا ہے، صاحب کیا اچھے زمانے تھے، ایوب خان کے زمانے میں چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی، صاحب بہادر کو تسلی اور پکی دینے والا طبیب کہتا ہے کہ اب ایک یہ وقت ہے کہ جمہوریت اور اسمبلی کے وکلاء ڈرے ڈرے رہتے ہیں، حاضر دماغ کارکن کہتا ہے کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟

طوطی زبان اسمبلی استفسار کرتا ہے کہ کیا میرا سارا سرمایہ ڈوب جائے گا؟ حاضر دماغ کارکن کہتا ہے کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں، آپ کی فیملی تو باہر ہے، سرمایہ بھی محفوظ ہے۔

طوطی زبان دانش ور کو پھر سر سام ہونے لگتا ہے۔ ایسا اس کا ڈرائیور بتا رہا تھا۔

ایک پڑھا لکھا رئیس جمہوریت کو یاد آتا ہے، کہ ایتھنز کی پہلی اسمبلی کے سارے دیوتا نقلی تھے، ان دیوتاؤں کی مخالفت پر سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا، یہی رئیس علم و دانش نے کہا کہ سارے دیوتا جھوٹے تھے، سقراط نے چیلنج کیا، اسمبلی نے اس کو زہر پلا دی، اس کے شاگرد بھی جھوٹے تھے، افلاطون اور ارسطو نے جھوٹے دیوتاؤں کو عقلی بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی، لیکن سینئر صحافی، داروغہ شہر، طوطی زبان دانش ور، سب حیران ہیں، جمہوریت اور اسمبلی کے ڈاکٹر اور طبیب بھی پریشان ہیں کہ یہ ناکو والی روایت کہاں سے آئی، اس وقت ایک بار پھر ننھی پری نے نعرہ لگایا، سب کو جھر جھری سی آئی۔ حاضر دماغ کارکن نے کہا۔ آپ لوگ بھول گئے، کیا؟ بہت ساری آوازیں ایک دم سنائی دینے لگیں، یہ روایت کسی اور نے نہیں، ہمارے ہی نظام کے ایک ڈائریکٹر۔۔۔۔۔ تھوڑا ساسکوت آ جاتا ہے، پھر سبھی عظیم الشان جمہوریت کے وکیل ایک ساتھ پوچھنے لگتے ہیں، حاضر دماغ کہتا ہے، ایسی روایت ہمارے شہر کی کبھی نہیں رہی، اس وقت بھی جب وکلا کا قتل ہوا۔

حاضر دماغ کہتا رہا، اس وقت بھی جب ہزارہ ٹاؤن میں بہت بڑا دھماکہ ہوا، لیکن یہ روایت 2013ء میں پڑی۔ ایک طوطی لسان ہکلانے لگا۔ کیسے۔ میں تو بھول گیا، حاضر دماغ کہتا ہے کہ جب علمدار روڈ پر دو دھماکے ہوئے تھے، اسمبلی میں دو وزیروں نے کہا تھا کہ معاملات وارثوں سے طے پاگئے تھے کہ وہ لاشیں دفنائیں گے، لیکن پھر، جمہوری بچے شور مچانے لگے پریشانی میں۔

حاضر دماغ کہتا ہے کہ کسی ڈائریکٹر کو سوجھی کہ 2013ء کی حکومت سے جان چھڑانی ہے، تو لاشیں نہیں دفنائی جائیں گی۔ غضب کی سردی تھی، وارثوں نے ایسا ہی کیا، کیونکہ ان کا ایک نمائندہ بھی تھا، حاضر دماغ بتا رہا تھا کہ نمائندہ اس دوران ایک دو گھنٹے کیلئے غائب ہوا تھا، پھر لاشیں دفنائی نہیں گئیں، اور گورنر راج نافذ کیا گیا۔ حاضر دماغ بتایا کہ اس دن کے بعد سے یہ روایت پڑ گئی۔ مچھ میں 17 ہزارہ مزدوروں کو ذبح کرنے کے وقت بھی اور کمسن رامز کے وقت بھی یہ روایت دہرائی گئی۔

جمہوری راجے، مہاراجے، جمہوری بچے اور سہم گئے۔ اور اب یہ اسی ذہین و فطین ڈائریکٹر کی مہربانی ہے کہ آج ناکو محراب اسی روایت کے ساتھ آیا۔ اور پورے شہر کو، ہمارے نامی گرامی جمہوری راجے، مہاراجوں کو ننھی پری کے نعروں نے خوف زدہ کیا ہے۔ حاضر دماغ کہتا ہے، روایت پڑ چکی ہے، اللہ سب بہتر کرے گا۔


 

SHARE
Previous articleوزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف عدم اعتماد پیش
Next articleآٹھ سال سے لاپتہ بیٹے کو بازیاب کیا جائے – والدہ خالد نواب
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔