آزادی کے امام ۔محمد خان داؤد

208

آزادی کے امام

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب کوئی سردار مر کر دھرتی میں دفن ہوتا ہے تو دھرتی کے سینے پر ایک بار بن جاتا ہے۔
جو دھرتی اُٹھانا بھی چاہیے دھرتی سے نہیں اُٹھتا۔ پر جب کوئی دھرتی کا عاشق شہید ہوکر دھرتی کے سینے میں جاتا ہے تو دھرتی توازن کھونے لگتی ہے۔ چاند ہزارسال کے ماتم کا اعلان کرتا ہے۔وشال آکاش سکڑنے لگتا ہے۔ تارے جھڑ جھڑ کر ٹوٹنے لگتے ہیں۔ہوائیں رکنے لگتی ہیں اور دھرتی کا سانس رُکتا محسوس ہوتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار ہمیشہ بستر پر مرتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگت پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنے سینے پر گولی کھاکر کونج بن کر اُڑ جاتا ہے؟
”اللہ مان اُڈری ویندوسائین!“
دیکھنا!میں اُڑ جاؤں گا!“
ایساکیوں ہوتا ہے کہ سردار بستر مرگ پر بہت سے پیشاب سے بھری شلوار میں مرتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ شہید کی آخری قمیض بھی لہو سے سُرخ سُرخ ہو تی ہے!
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردارموت سے ڈرتے ڈرتے بے موت مر جاتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگت موت سے نہیں ڈرتے موت ان پر عاشق ہوتی ہے
اور کسی دن آکر ان سے بغلگیر ہوتی ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردارکے کتے اور کمدار جاگتے ہیں اور سردار سوتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی سوتی ہے اور دھرتی کے عاشق جا گتے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سرداروں نے دھرتی کو نہ نظر آنی والی زنجیروں سے جکڑ رکھا ہوتا ہے
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگت ہر وقت ان زنجیروں کو ہلاتے رہتے ہیں
جن زنجیروں کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”ھن زلف زنجیر جے کمد وھندا
دیوانہ ھزاریں مان نہ رگو!“
”مجھے ان زلف کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے میں ایک ہی دیوانہ نہیں ہزاروں ہیں“
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار اپنے ریوں میں بھی آزاد نہیں ہو تے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے بیٹوں اپنے علموں،باتوں اور کرموں سمیت آزاد ہو تے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار روائیتی باتوں کے فقیر بن کر رہ جا تے ہیں؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سرمچارنئی باتیں لاتے ہیں نئے اعلان لاتے ہیں
بلکل آزادی جیسے
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سرداروں کے پاس آزادی ایک گالی ہو تی ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے بیٹوں کے پاس آزادی ایک محبوبہ ہوتی ہے
جو ان سے روٹھ گئی ہے جس کی تلاش میں وہ پنہوں بنے ہوئے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سرداروں کے مرتے وقت کفن سرخ نہیں ہو تے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو بھی دھرتی کا بیٹا مرا ہے اس کا کفن لہو سے سرخ سرخ ہی رہا ہے؟
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ موت سرداروں کو بڑھاپے تک موقع دیتی ہے
اور وہ جیتے رہتے ہیں شاید اس لیے کہ پھر وہ بھلا دیے جائیں؟!!
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی ماں کے بیٹے جوانی میں ہی دھرتی پر وار دیے جا تے ہیں
شاید اس لیے کہ انہیں کوئی کبھی نہ بھولے
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار بوڑھے جسموں سلامت جسم لے کر قبروں میں جا تے ہیں
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیش بھگتوں کے جسموں پر اتنے گھاؤ ہو تے ہیں
جنیں دھرتی ماں شمار کرنے بیٹھتی ہے تو رو تی ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک سردار سو قبیلوں کا سردار ہوتا ہے اور لاکھوں انسانوں کا غلام بنائے رکھتا ہے؟
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک سرمچار لاکھوں انسانوں کی آزادی کا سوچتا ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار اپنی گندی قبیلائی سیاست کی بھینٹ میں دھرتی کو جھونک دیتے ہیں
اور دھرتی مقروض اور کا ری ہو کر رہ جا تی ہے
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے عاشق دھرتی سے محبوبہ جیسی نہیں پر ماں جیسی محبت کرتے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار دھرتی کے سر سے پرچم جیسا دوپٹہ کھینچ لیتے ہیں اور دھرتی کی عزت جا تی رہتی ہے
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آگے بڑھ کر دھرتی کے بیٹے دھرتی کے ماتھے ر پرچم جیسا نیا دوپٹہ رکھتے ہیں اور اس عزت کی لاج بھی رکھتے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سردار پو ری دھرتی کو جرگوں کی نظر کرنے کی سوچتے رہتے ہیں
اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دھرتی کے بیٹے چاہتے ہیں کہ دھرتی پر مہندی کے پھول کھلیں اور سب کے ہاتھ مہندی رنگ سے رنگ جائیں
تو ہم یہاں بستروں پر مرنے والے سردوں کے قصہ خوانی کرنے نہیں آئے
ہم یہاں دھرتی کے گھائل بیٹوں کے گیت لکھنے آئے ہیں
جو دکھی دھرتی کا عظیم پیوند ہیں
جو بلند پرچم ہیں
جو پہاڑوں کے بیچ گولی کھا کر گرتے ہیں
تو دھرتی سوگ کا اعلان کرتی ہے
چاند ماتمی لباس میں ان کو دیکھنے آتا ہے
ہوائیں رُک جا تی ہیں
اور آکاش سے تارے ان پر گرنے لگتے ہیں
وہ جو آزادی کے امام ہیں
وہ جو محبت کے گیت ہیں
وہ جو دھرتی کے معصوم بیٹے ہیں
جب وہ دھرتی میں دفن ہونے لگتے ہیں
دھرتی اپنا توازن کھونے لگتی ہے
پر آگے بڑھ کر دھرتی ان کو اپنی بہانوں میں ایسے لیتے ہے
جیسے پہلی بار ماں بننے والی جوان لڑکی اپنے گرتے بچے
کو اٹھا کر اپنی بہانوں میں بھر لیتی ہے
بوڑھے سردار دھرتی سے بھول جائیں گے
جوان بیٹے رہتے آکاش تک دھرتی کے سینے پر
آگ کی دھرتی سُلگتے رہیں گے
جب بھی بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر کسی دیش بھگت کے لہو کا قطرہ گرتا ہے،تو اس لہو قطرے سے پتھروں کے بیچ گلاب کھل آتا ہے
سرخ گلاب!
لہو رنگ گلاب!
گلاب کی رنگت اور خوشبو ہو بہ ہو اس دیش بھگت جیسی ہو تی ہے۔جو پہاڑوں کے بیچ رہ کر ماں کی بولی میں دیش کے گیت گاتا ہے
محبت کے گیت
آزادی کے گیت!
دھرتی ان آزادی کے اماموں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں