امریکی فوج کا کثیر حجم اور درپیش مسائل – جرمی سوری

206

امریکی فوج کا کثیر حجم اور درپیش مسائل

تحریر: جرمی سوری
(نیویارک ٹائمز)

دی بلوچستان پوسٹ

اپنی پوری تاریخ میں امریکا چھوٹی سی امن فوج کے ساتھ ایک عظیم ملک رہا ہے مگر دوسری جنگ عظیم نے یہ سب کچھ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا۔ امریکی لیڈروں نے سوچا کہ نئی عالمی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے انہیں ایک بڑی امن فوج کی ضرورت ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں اور دنیا بھر میں اس کے فوجی اڈوں کا نیٹ ورک بھی ہونا چاہیئے۔ ان کا خیال تھا ایک بڑی عسکری قوت کے ساتھ مزید عالمی جنگوں سے بچا جاسکتا ہے۔

دشمن کو ڈرایا جاسکتا ہے اور دوسرے ممالک کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے کہ وہ ہماری خواہشات کا احترام کریں مگر اس عسکری برتری سے شاید ہی کبھی مطلوبہ فوائد مل سکے ہوں۔ بیس سال کی انتھک کوششوں اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکی سرپرستی میں چلنے والی افغان حکومت کا خاتمہ وہ تازہ ترین جھٹکا ہے جو ہمیں اپنے طویل بیانیے کی ناکامی کی صورت میں لگا ہے۔ افغان جنگ محض ایک ناکام مداخلت ہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا کھلا ثبوت بھی ہے کہ ہماری عالمی عسکری بالادستی امریکی مفادات کیلئے کس قدر نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ اس عسکری بالادستی سے ہمیں فتح کم اور شکست کا سامنا زیادہ کرنا پڑا ہے بلکہ یہ اندرونی اور بیرونی طور پر ہماری جمہوری اقدار کیلئے بھی نہایت مضر ثابت ہوئی ہے۔

تاریخ تو بڑی واضح ہے، طے شدہ اور محدود عسکری اور تزویراتی اہداف امریکا کیلئے زیادہ مفید ہوں گے۔ اب امریکی رائے عامہ بھی اس سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ اپنی عسکری بالادستی کی خواہش کا ایک بار نئے سرے سے جائزہ لے۔ عسکری بالادستی کی پالیسی کی وجہ سے امریکا بار بار دور افتادہ طویل اور مہنگے تنازعات میں الجھتا رہا ہے جس کے نتائج ہمیشہ شکست کی صورت میں ہی برآمد ہوئے ہیں۔ ویتنام کی جنگ ہو یا لبنان، عراق، افغانستان یا کسی اور ملک کی جنگ، امریکی قیادت اکثر یہ مفروضہ قائم کر لیتی ہے کہ سیاسی اور سفارتی پابندیوں کا ازالہ عسکری بالادستی سے ہی ممکن ہے محاذِ جنگ کی کامیابیوں کے باوجود امریکی فوج اکثر اپنے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

اپنی عسکری قوت کے غلط تخمینوں کی وجہ سے ہی صدر ہیری ٹرومین کو یہ شہ ملی تھی کہ وہ اپنی فوج کو کورین جنگ میں شمالی کوریا کی سرحد عبور کر کے چین کی سرحد تک جانے کا حکم دیں۔ انہیں امید تھی کہ امریکی فوجی ایک مرتبہ پھر جزیرہ نما کوریا کو متحد کرسکتے ہیں مگر یہ مداخلت چین کے ساتھ ایک بڑی جنگ اور تنازع میں تبدیل ہوگئی۔ امریکا کے جزیرہ نما کوریا میں فوج متعین کرنے کے 70سال بعد صورتحال یہ ہے کہ شمالی کوریا کی کیمونسٹ حکومت پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ہے۔ ویتنام کی جنگ میں صدر لنڈن بی جانسن کے ارد گرد موجود بہترین اور روشن دماغ مشیروں نے مشورہ دیا تھا کہ امریکا کی بے تحاشا قوت بغاوت کو کچل دے گی اور کمیونزم مخالف حکومت کا دفاع مضبوط ہوگا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔

امریکی عسکری مداخلت نے بغاوت کی چنگاری کو ہوا دی اور جنوبی ویتنام کا امریکا پر انحصاری مزید بڑھ گیا۔ 1975ء میں شمالی ویتنام کے حملے کے بعد امریکا کی تربیت یافتہ حلیف فوج کو بھی اسی طرح ہزیمت اٹھانا پڑی جس طرح اس موسم گرما میں افغانستان میں امریکی فوج کو شکست ہوئی ہے۔ اس میں فوجیوں کا کوئی قصور نہیں تھا مشن میں خرابی تھی۔ مؤثر سرکاری اداروں اور نمائندوں کے قیام کیلئے جو محنت درکار ہوتی ہے عسکری قوت اس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ مستحکم معاشرے کو ہمیشہ پُر امن تجارت، تعلیم اور شہریوں کی شرکت جیسی مضبوط بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایسا ہوتا تو ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر فوج کی موجودگی سیاسی پیش رفت کو نقصان پہنچاتی ہے سماجی ترقی کی بجائے اس کا رخ عسکری اور پولیس کی طاقت کی طرف موڑ دیتی ہے۔

فوجی مداخلت کے ہمیشہ وہاں بہتر نتائج ملے ہیں جہاں سرکاری ادارے موجود ہوں، جیسا کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد جرمنی اور جاپان میں دیکھنے میں آیا۔ امریکی لیڈروں نے مسلح افواج پر بہت زیادہ انحصار کیا کیونکہ ایک اس کا حجم بہت زیادہ ہے دوسرا کہ اسے کسی جگہ بھی تعینات کرنا نہایت آسان ہے۔ اتنی بڑی فوج بنانے کا یہی مسئلہ ہوتا ہے امریکی فوج کا سالانہ بجٹ 700 ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ ہم اسے کسی بہتر متبادل کے بجائے فوج ہی خرچ کریں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بیرون ملک مقامی حکومتوں کے ایڈمنسٹریٹرز کی تربیت کا مسئلہ ہو تو امریکی فوج ہی سامنے آتی ہے دیگر ایجنسیوں کے پاس اتنی صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہوتی ہمیں جہاں سویلینز کی ضرورت ہوتی ہے ہم وہاں فوجی بھیج دیتے ہیں کیونکہ فوجیوں کو وسائل مل جاتے ہیں یہ معاملہ اس وقت اور بھی بدتر صورت اختیار کر جاتا ہے جب کانگرس سے مزید رقم کے حصول کیلئے لابنگ پر بھاری اخراجات کرتی ہے۔

ملک کے اندر فوج کی طاقت اور تعداد بڑھانے کا مطلب یہ ہے امریکی معاشرہ اور زیادہ عسکری زدہ ہوچکا ہے۔ پولیس کے شعبوں کو آج کل فوجی ہتھیاروں سے لیس کیا جارہا ہے کئی دفعہ تو پولیس کے پاس فوج سے بھی زیادہ ہتھیار ہوتے ہیں۔ سابق فوجی تشدد انتہاء پسند گروپوں کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں گذشتہ عشرے کے دوران ایسے کیسز میں بہت اضافہ ہوا ہے 10 فیصد سے بھی کم امریکی شہریوں نے فوج میں سروس کی ہے مگر جن مظاہرین نے 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر حملہ کیا تھا، ان میں سے 12 فیصد سابق امریکی فوجی تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فوج ہمارے معاشرے کے محب وطن اور بہترین پیشہ ور لوگوں پر مشتمل ہے۔ مشکل اس وقت ہوتی ہے کہ اس کا حجم کتنا بڑھ چکا ہے اور اس کا کس قدر غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکی شہریوں کو اس کے بارے میں دیانتدارانہ رائے رکھنی چاہیے کہ امریکی فوج کیا کچھ نہیں کرسکتی۔ ہمیں اپنے وسائل ان اداروں اور ایجنسیوں پر صرف کرنے چاہیے جن کی وجہ سے ہمارا ملک مزید خوشحال اور محفوظ بن جائے ہمیں اسی وقت بہت زیادہ فائدہ ہوگا جب ہم ایک چھوٹی سی امن فوج رکھنے والے ایک عظیم ملک کی طرح تاریخ سے دوبارہ رجوع کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں