بلوچوں کو لاپتہ کیوں کیا جاتا ہے؟ – سمیر بلوچ

305

بلوچوں کو لاپتہ کیوں کیا جاتا ہے؟

تحریر: سمیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس تحریر میں کوشش ہوگا کہ میں آپ کے سامنے چند لاپتہ افراد کے نام اور اُن کے لاپتہ ہونے کے وجوہات رکھوں۔

آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آتا ہوگا کہ آخر یہ لوگ لاپتہ کیوں کئے جاتے ہیں؟ پھر کچھ غلام سوچ والا اندازہ لگائیں گے کہ اس نے کچھ تو کیا ہوگا، یہ افغانستان گیا ہوگا، اور کچھ باشعور لوگ کہیں گے کہ کیوں کے وہ بلوچ تھا، وہ اپنے حقوق مانگتا تھا، اپنے حقوق جانتا تھا۔
اگر ہم دنیا کا تاریخ دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جہاں جہاں جس جس نے اپنا حق مانگا اور اپنے سرزمین کے لئے بات کیا تو ان کو لاپتہ کیا گیا اور سخت ٹارچر بھی کیا گیا۔

یہی کچھ آج بلوچستان میں ہو رہا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ نوجوان لیڈر زاکر مجید بلوچ کو 12 سالوں سے کیوں لاپتہ کیا گیا ہے؟ “زاکر مجید بلوچ ایک باشعور بلوچ طلبہ لیڈر تھا اور ریاست سے سوال کرتا تھا، اپنے طلبہ کا حقوق مانگتا تھا اور اپنے سرزمین پر قبضہ گیروں کے خلاف حقیقت پر مبنی سخت رائے رکھتا تھا، زاکر مجید بلوچ کو اس ریاست نے اور زیادہ موقع نہیں دینا چاہا کیونکہ اب یہ نوجوان اپنے حقوق جان چکا تھا اور اب یہ دوسرے نوجوانوں کو نیند سے بیدار کر رہا تھا اور پھر ریاستِ مدینہ نے سوچا اسے مزید کچھ ٹائم دیا گیا تو یہ تمام بلوچ نوجوانوں کو نیند سے بیدار کرےگا اور پھر ہمارا قبضہ گیریت ختم اور لوٹ مار بند ہوگا۔”

اسی طرح “ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو اپنے غلامی کا احساس ہوا اور اپنے بلوچ قوم و وطن پر ظلم دیکھ دیکھ رہا تھا اور ریاست کے ان policy کے خلاف بولا اپنے سرزمین پر ظلم کے خلاف کھڑا ہوا”

“چیرمین زاہد بلوچ جو تاحال لاپتہ ہیں کیوں کہ وہ بھی اپنے وطن کے حقوق کے لئے بولتے تھے، میں نے چیرمین زاہد بلوچ کا ایک انٹرویو سنا جہاں وہ ایک پاکستانی ٹی وی پر بات کر رہے ہوتے ہیں جہاں وہ سب سے زیادہ تلخ اور سخت لہجے میں حقیقت بیان کرتے ہیں، اسی انٹرویو میں چیرمین زاہد بلوچ کہتے ہیں کہ: میرے سرزمین پر پنجابی کیوں لوٹ مار کر رہا ہے؟ آج میرے سرزمین پر پنجابی کو کیوں جگہ دیا جارہا ہے؟ اس سرزمین کا وارث بلوچ ہے، یہاں ہر چیز پر حق صرف بلوچ کا ہے سامراج یہاں میرے سرزمین کو کیوں لوٹ رہا ہے؟ میرے سرزمین پر وہ قبضہ گیر ہے بلوچ قوم کبھی سامراج کو اپنے سرزمین پر قبول نہیں کرسکتا، تو پاکستانی ٹی وی چینل کی میزبان سرخ صفید ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ آپ پنجابی کو سامراج اور قبضہ گیر کہہ رہے ہو، وہ اس ملک کے شہری ہیں کہہ کر فوراً چیرمین زاہد بلوچ سے مائک لینے کا کہتی ہے، اور ہر سوال کے جواب پر میزبان صاحبہ اُن سے جلدی مائک لیتی ہے کیوں کہ چیرمین زاہد بلوچ حقیقت پر مبنی بات کر رہے ہوتے ہیں، اور پاکستانی میزبان اس حقیت کو سننا برداشت نہیں کر پاتی، تو مطلب یہ کے یہ وہ نوجوان ہے جسے پاکستانی ریاست نے اس وجہ اذیت خانوں میں رکھا ہوا ہے کیوں کہ وہ سامراج کو اُس کا اصلی چہرہ دکھاتے تھے۔”

ایک اور بلوچ نوجوان راشد حسین کو امارتی خفیہ ادارے کے بندے اغوا کرتے ہیں، اور پھر پاکستان انٹرپول کے ذریعے راشید حسین کا گرفتاری اُس وقت ظاہر کرتا ہے جب راشد حسین کو غیرقانونی طریقے سے نجی طیارے میں دبئی سے پاکستان منتقل کیا جاتا ہے، گرفتاری کے کچھ عرصے بعد راشد حسین کو مفرور قرار دیا جاتا ہے، (لیکن در حقیقت راشد حسین مفرور نہیں پاکستان کے ٹارچر سیل میں بند ہے) راشید حسین کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ بلوچ نوجوان ہے اور وہ اپنے بلوچ قوم کے حقوق کے بارے میں لکھتے تھے، اور بلوچ مسنگ پرسنز کے بازیابی کے لئے بھی لکھتے تھے جو اب خود اُسی فہرست میں شامل ہو گیا۔

اس ریاست کی کمظرفی دیکھیں، کچھ سال قبل 2018 میں ایک بلوچ نوجوان بلال کو لاپتہ کیا، اس نوجوان کو اس لئے لاپتہ کیا کیوں کے اس کے کماش (والد) استاد میر احمد انقلابی گانے گاتے ہیں، کیا آپ نے کبھی اس پر سوچا کہ ریاست مدینہ نے کس قانون کے تحت اس نوجوان کو لاپتہ کیا تھا؟ اگر دنیا میں کسی شخص پر کوئی جرم ثابت ہو تب بھی دنیا کا کوئی قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ اُس شخص کے گھر کے کسی فرد کو اُس جرم کا سزا دیا جائے۔

ایسے اور ہزاروں اور بلوچ نوجوان ہیں جنہیں اپنے حقوق کے لئے بات کرنے کے وجہ سے لاپتہ کیا گیا اور یہاں صرف ایسے بلوچوں کو لاپتہ نہیں کیا گیا بلوچ سرزمین پر ایسے بہت سے بلوچ مرد اور عورت بھی لاپتہ کئے گئے جنہیں نے کوئی ایک لفظ اپنے حقوق کے لئے نہیں بولا پاکستانی ریاست کے ڈر سے کہ کہیں وہ، اُن کا بیٹا، بھائی یا شوہر لاپتہ نہ کردیا جائے یا مارا نہ جائے، لیکن وہ پھر بھی اس جبر کا شکار ہوئے کیونکہ اُن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بلوچ ہیں۔

اب ہمارے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ صرف بلوچ ہونے میں کیا ہے جس کے وجہ سے لاپتہ کردیا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب بہت آسان ہے ریاست پاکستان بلوچوں کو اس لئے لاپتہ کرتا ہے یہ ماورائے عدالت قتل کرتا ہے کیوں کہ وہ بلوچ میں خوف کا فضا قائم رکھنا چاہتا ہے تاکہ تمارے ضمیر کا جراثیم اسی طرح مردا رہے تم اس خوف میں اسکا غلامی کرتے رہو، اور وہ بلوچ سرزمین پر اپنا قبضہ اسی طرح برقرار رکھے اور اس سرزمین کو لوٹ کر کھائے یا چاغی میں ایٹم بم کا تجربہ کرے یا کہ سوئی گیس اور سیندک کو لوٹے اور تمارے سرزمین پر قبضہ جمائے رکھے تو یہ ریاست اس راہ میں بلوچ کو اس رکاوٹ سے ہٹا کر آپ میں خوف و حراس پیدا کرنے کے لئے وہ مظلوم لوگوں کو بھی لاپتہ کرے گا، حیات جیسے نوجوانوں کو والد اور والدہ کے سامنے سینے میں آٹھ گولیاں مارے گا تاکہ دوسر والدین میں بھی خوف کا فضاء برقرار رکھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں