چیلنجز کا واحد حل طالب علموں کی شعوری اور فکری تربیت ہے – نال میں بساک سیمینار

142

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نال زون کی جانب سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ طلباء کو درپیش چیلنجز کا واحد حل طالب علموں کی شعوری اور فکری تربیت ہے – مرکزی وائس چیئرپرسن شبیر بلوچ

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نال زون کی جانب سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ جس میں کیریئر کاؤنسلنگ، کتاب کی اہمیت، تعلیم کی اہمیت، نال میں تعلیم کے مسائل، گرلز ایجوکیشن کی اہمیت، جیسے مضامین زیر بحث رہے اور ساتھ ہی ساتھ میں بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے ایک بک اسٹال کا بھی انعقاد کیا گیا۔ طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کرکے مقررین کے علمی خیالات سے مستفید ہوئے۔

سیمینار میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی وائس چیئرپرسن شبیر بلوچ، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری عارف بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر سمعیہ بلوچ، بطور مہمان خاص ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ بوائز ہائی سکول مروکی محمد یعقوب، ڈائریکٹر قندیل سکول سسٹم خلیل احمد بلوچ، کاروان علم و حق کے چیئرمین اسد نور بزنجو، ایگریکلچر آفیسر عظیم صاحب و دیگر معززین نے شرکت کی۔ سیمینار کا آغاز باقاعدہ تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا۔

سیمینار سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی وائس چیئرپرسن شبیر بلوچ نے بلوچ سیاست میں طلباء کی تاریخی کردار اور اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کی ترقی میں طلباء کا فعال کردار رہا ہیں کیونکہ طلباء ہی وہ محترک طبقہ ہیں جو ہمہ وقت تحقیق و تخلیق کی جستجو میں مگو قوموں کی ترقی میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتا آرہا ہیں۔ اگر دنیا کی چند ترقی یافتہ ریاستوں پر طائرانہ نظر دوڑائیں جائیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہیں کہ ان ریاستوں میں طلباء نے غیر ضروری عوامل کی بیخ بینی کرتے ہوئے قومی خدمت کو اپنے شعار بنایا ہیں اسی طرح بلوچ قومی سیاست میں بلوچ طلباء کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ بلوچ طلباء تنظیموں نے اپنے قیام سے ہی سے مخلتف مشکل و مصائب کا سامنا کرتے ہوئے طلباء کی مسائل کے حل کے لئے ہر اول دستے کا کردار کیا ہے جو تاہنوز جاری ہیں۔ یہ ایک حقیقیت ہے کہ بلوچ سیاست کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک نئی شکل دینا بلوچ طلباء کی دین ہیں۔ گذشتہ چند تعلیمی مسائل کو دیکھا جائے تو مختلف الائنس قائم کرکے اجتماعی طور پر اپنی تعلیمی مقاصد حاصل کیے ہیں ان میں آنلائن کلاسز کے کلاسز سمیت مختلف مہم شامل ہیں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شبیر بلوچ نے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے اغراض مقاصد پر تفصیلی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تنظیم یا پارٹی کا آئین بہت اہمیت کا ہوتا ہیں کیونکہ تنظیمی آئین ہی تنظیم کی بنیادی مقام کا تعین کرتی ہیں۔ تنظیم کے آئین کو مطالعہ کرنے کے بعد یہ اہم پہلو سامنے آتی ہیں کہ تنظیم بلوچ نیشنلزم کی بنیاد پر تعلیمی مسائل کو حل کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہیں گی اور بلوچ طلباء کو درپیش چیلنچز کا سامنا کرنے کے لئے طلباء کی ذہنی تربیت کرے گی ۔ تنظیم نے اپنے آئینی مقاصد کے تحت بلوچ طلباء کی ہمہ وقت مسائل میں ہر اول دستہ کا اہم کردار ادا کیا ہیں۔ بلوچ طلباء سیاست پر چھائے تضادات کو حل کرنے میں تنظیم نے اہم کردار ادا کیا ہیں۔ ان میں سرفہرست بلوچ و براہوئی تضاد تھا جہاں بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کے مطابق بلوچ و براہوئی کو دو مختلف قومیں ظاہر کرکے دانستہ طور پر تضاد کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی مگر تنظیمی پالیسیوں کی تحت بروقت بیشتر شہروں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کرکے ان ہھتکنڈوں کو ناکام بنایا ہیں۔ اس تضادات کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی ویڈیو اسکینڈل جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جہاں خفیہ مقامات پر کیمرے لگاکر ہراساں کیا گیا ان سمیت ان گنت مسائل پر تنظیم نے اپنے محکم پالیسیوں کے تحت تعلیم دشمن عناصر کے خلاف اپنے مستحکم پالیسیوں کو واضح کیے ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری عارف بلوچ نے سیمینار میں خود کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تنظیمی اراکین کا اولین فرض کتابوں سے جُڑے رہ کر خود کی تربیت ہے کیونکہ علمی، فکری اور شعوری حوالے سے پختہ سیاسی کارکنان ہی تنظیمی مضبوطی کا ضامن ہے۔ آج کارکنان کی سب سے اہم ذمہ داری خود کی تربیت اور دیگر طالبعلموں کی تربیت ہے جس کےلیے واحد راستہ کتب بینی ہے کیونکہ کتب بینی ہی ایک انسان کو فکری حوالے سے پختہ کرتے ہوئے ایک منظم جدوجہد کا داعی بنا دیتا ہے۔ کتابیں خود شناسی کا نام ہیں کیونکہ کتابیں ایک انسان کو خود کی پہچان دیتی ہیں۔

تعلیم کی اہمیت پر مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سمیعہ بلوچ نے بات کرتے ہو کہا بلوچ طلباء کے تعلیمی مسائل کے حل و جمہوری حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد ہمارا نصب العین ہے۔ اگر ہم بلوچ علاقوں کے تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیں تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ گزرتے وقت کے ساتھ بلوچ علاقوں میں تعلیمی مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ جہاں ایک طرف بلوچستان میں اسکول سطح کی تعلیمی ڈھانچہ مکمل ناکامی کا شکار ہے تو دوسری طرف کالج اور اعلی سطح پر سہولیات کی عدم فراہمی و اساتذہ کے کمی کی وجہ سے حصول تعلیم ناممکن ہوچکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم یافتہ بلوچستان ہمارا خواب ہے۔ جس کی تعبیر بغیر منظم جہدوجہد کے ممکن نہیں، تنظیم کے تمام ممبران کی یک مشت ہوئے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ ہمیں عالاقائی سطح پر تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے سمیت تعلیمی مسائل کے حل کے لیے منظم جہدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ اکثریت علاقوں میں تعلیمی زبوں حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ عہد کے طالبعلموں کےلیے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہایت ہی ضروری ہے۔ جہاں ایک جانب طالبعلموں کا خود کے علمی صلاحیتوں کو نکھارنا ایک ضروری امر بن چکا ہے وہیں تسلسل کے ساتھ سماج میں علمی رجحان کے پروان کے لیے منظم اور اجتماعی کوششیں قومی ذمہ داری کے طور پر گردانا جاتا ہے۔