مظلوموں کا لالا – شہیک بلوچ

216

مظلوموں کا لالا

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مظلوموں کا رشتہ انسانیت کا ہی ہوتا ہے اور یہی انسانی ہمدردی مظلوموں کے درمیان موثر تعلق قائم رکھ سکتا ہے۔ بدبختی سے یہاں کے مظلوم استحصال کار کی زبان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت آمیزی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں لیکن وقت کیساتھ یہ بیانیہ ماند پڑتا گیا اور مظلوموں میں شعور کی انگڑائی نے ان پر بہت کچھ واضح کردیا۔انسانیت کی آنکھ سے سب کے دکھ درد ایک ہی جیسے تھے۔ اب آہستہ آہستہ ان کی زبان بھی ایک مزاحمتی سمت اختیار کرتی جارہی ہے۔

عثمان لالا ایک پشتون ہوتے ہوئے بھی اپنی روح میں بلوچ دکھ درد کے لیے انسانیت کی تڑپ رکھتے تھے۔ وہ جب بولتے تو لگتا پورا بلوچستان بول رہا ہے۔ ایک عام پشتون کی حیثیت سے اسٹوڈنٹ لیول سے لے کر ایک سینیٹر تک انہوں نے بہت کچھ دیکھا، بہت کچھ محسوس کیا۔

ان کی سیاسی نشوونما ہوتی رہی اور وہ جمود کا شکار رہنے یا پھر تبدیلی سے انکاری ہونے کی بجائے مزید میچور ہوتے گئے، نکھرتے گئے۔ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر مظلوموں کی ترجمانی شروع کردی۔
بلوچ و پشتون مسنگ پرسنز سے لے مسخ شدہ لاشوں پر وہ ریاست کو اس کا گھنائونا چہرہ دکھاتے رہے۔ افغان وار کے نام پر پختون مستقبلِ کو مسلسل جنگ میں جھونکنے پر وہ ایوانوں میں استحصال کار کے خلاف گرجدار آواز بن کر بولے۔

وہ بانک کریمہ سے لے کر حیات بلوچ کے واقعہ تک کو نوٹ کرواتے رہے۔ آخر میں انہوں نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا کہ ان کو ختم کرنے کے لیے اشارے دیے جارہے ہیں لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹینگے۔
سینیٹ کے اجلاس میں وہ ایک شعر سناتے ہیں۔
جس میں وہ شاعر کا حوالہ دیتے ہیں کہ
“اگر یہاں زندہ رہنا ہے تو جھوٹ کو سچ کہو
اگر یہاں زندہ رہنا ہے تو خون کو پانی کہو،
اگر یہاں زندہ رہنا ہے تو کھری کھری باتیں مت کرو،
اگر یہاں زندہ رہنا ہے تو مردے کو کہو کہ سویا ہوا ہے۔

یہ شعر سنا کر لالا کہتے ہیں کہ
ہم جھوٹ کو سچ نہیں کہہ سکتے،،، ہم خون کو پانی نہیں کہہ سکتے،،، ہم مردے کو سویا ہوا نہیں کہہ سکتے،،، چاہے آپ جو بھی سزا دو ہمیں منظور ہے۔۔۔۔”

لالا کو سچائی کی قیمت اپنی جان کی صورت میں چکانی پڑی لیکن اب ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہوا ہے۔۔۔ لالا کے خون نے مظلوم اقوام بلخصوص بلوچ و پشتون کو ایک ساتھ لاکھڑا کردیا ہے۔ بلوچ قوم نے جس عقیدت کیساتھ لالا کے جس خاکی کا استقبال کیا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مظلوم ہی مظلوم کے دکھ درد کو محسوس کرسکتا ہے۔ بقول شاعر بڑا ہے درد کا رشتہ۔

پشتون کو جتنا استعمال کیا گیا، جتنا استحصال کیا گیا، جتنا مذاق اڑایا گیا،،،، جس طرح مذہبی جنونیت کو انجیکٹ کیا گیا،،، یہ ساری چیزیں نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل ہیں جنہوں نے آج پشتون قوم کو ریاست کے بالمقابل لاکھڑا کردیا ہے جہاں وہ ریاست کے سامنے ایک قومی سوال کیساتھ کھڑے ہیں۔ اب یہ سوال مزید شدت کیساتھ سر اٹھاتا رہیگا۔

اب بلوچ و پشتون لیڈرشپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت و حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دونوں اقوام کو مزید قریب لائیں، یہ پرانی طرز روایتی سیاست، سازشوں سے چند ایک سیٹوں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کا نقصان دونوں محکوم قوموں کو ہوا جب کے اس کا فائدہ صرف اور صرف غاصب کو ہوا۔ گورنرشپ یا وزارت اعلی سے کہیں زیادہ کا حق دونوں اقوام رکھتے ہیں۔ دونوں کی نجات قومی آزادی کی صورت میں ممکن ہے لیکن اس کے لیے ایک مشترکہ سنجیدہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔

مشترکہ جدوجہد کے لیے ضروری ہے کہ ہر طرح کے نفرت و تعصب سے پاک ہوکر مشترکہ دشمن کے خلاف ہر محاذ پر جدوجہد کی جائے۔
مظلوم قوم جب تک ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہینگے اس کا نقصان مظلوم اقوام کو ہی ہوگا۔

بلوچ نا ہی پشتون کا دشمن ہے اور نا ہی پشتون بلوچ کا دشمن ہے بلکہ دونوں کا دشمن مشترک ہے اور دونوں کا درد و غم بھی مشترک۔

آخر میں اتنا ضرور کہونگا کہ لالا عثمان کاکڑ کا درد صرف پشتون کا نہیں یہ بلوچ قوم کا بھی ہے۔ لالا و خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ مظلوم و محکوم اقوام کو متحد و منظم کرکے ان کے جدوجہد کو کامیاب بنایا جائے۔ گذارش ہے کہ اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیں، چھوٹی چھوٹی سطحی باتوں سے آگے نکل آئیں۔۔۔ ایک عظیم مستقبل بنانے کے لیے تعصبات کو چھوڑ دیں،،، یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ اب تک ہمیں ان تعصبات نے کیا دیا؟

اگر ہم ان سے بالاتر ہونگے تب ہی ہم ایک بہتر انسانی سماج کی بنیاد رکھ سکیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں