نیو کاہان قبضے کا مختصر قصہ – سنگ دل بلوچ

218

نیو کاہان قبضے کا مختصر قصہ

تحریر: سنگ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کے پنجاب میں ایک علاقہ ایسا ہے جہاں پر پونجا قوم آباد ہیں جہاں پر زمینیں فروخت کرنے پر پابندی ہے، صرف قوم پونجا وہاں رہ سکتی ہے دوسری اقوام کو اجازت تک نہیں دیتے۔ اسی طرح بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن میں سوائے ہزارہ برادری کے کوئی نہیں رہ سکتا یہ مثال میں نے کیوں دی ہے؟ آپ کو بتاتا چلوں کہ کوئٹہ ہی کے مغرب میں کوہ چلتن کے دامن میں پانی بجلی و دیگر بنیادی سہولیات سے محروم مری اقوام آباد ہیں۔ یہ مری 1992 کو افغانستان کی طویل جلاوطنی ختم کرکے یہاں پر نواب خیربخش مری نے آباد کئے۔ اس وقت نواب صاحب نے انہیں یہ زمین دیتے ہوئے کہاکہ فروخت کرنے یا دوسری اقوام کو آباد کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اس زمین کی حفاظت کا ذمہ بھی یہاں پر موجود لوگوں کے سپرد ہے۔ یہاں پر شہدا بلوچستان کی مزاریں یاداشتیں بھی ہیں۔ اس کے علاؤہ بابائے قوم نواب خیربخش مری اور انکی اہلیہ کی قبر یں بھی ہیں۔ نواب خیربخش مری کی رحلت کے بعد 2017 سے یہاں کے باسیوں کی زمینوں پر مختلف حیلے بہانوں سے قبضے کا سلسلہ جاری ہے 3 مارچ 2017 کو پہلی بار یہاں کے رہائشیوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے کہاتھا کہ چند شاہوانی و دیگر ہماری زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں جنہیں بعد ازاں ناکام بنایا گیا۔

اس کے بعد 2019 کو بھی یہاں کے زمینوں پر قبضے کی کوشش کی گئی جنہیں مقامی لوگوں نے پسپا کیا افسوس کا مقام ہے کہ ان زمینوں پر قبضہ گیر گروپوں کو اگر کوئی دوسری قوت کی پشت پناہی ہوتا تو نیو کاہان کے رہائشی بھی مدد کرتے البتہ ان میں سے چند کو تو ایک قبائلی شخصیت سپورٹ کررہا ہے ۔ مارچ 2020 کو مری قبیلےکی خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے روڈ بلاک کرکے قبضہ مافیا کے خلاف احتجاج کیا انکا کہنا تھا کہ ایک خاتون آمنہ نگہت زوجہ سید نعیم آغا کو بطور شلٹر استعمال کرکے تحصیلدار مراد مری جوکہ ایک سرکاری آفیسر ہیں ہماری زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ اس کے ہمراہ چند دیگر افراد جن میں کریم کلوانی، عبد الرزاق پٹھان ہرنائی والا ، گل خان سہراب پسران علے مہندانی مری اور حفیظ اللہ شاہوانی شامل ہیں۔ جنہیں کیو ڈی اے کی چند نام نہاد افسران جعلی کاغذات بناکر دے رہے ہیں اس کے بعد مری کیمپ کے رہائشیوں اور شالکوٹ انتظامیہ کی درمیان جنگ ہوئی جس سے متعدد مری گرفتار کئے گے اور ان پر ناجائز مقدمات قائم کرکے انہیں حوالات میں بندکیاگیاجو کہ بعد میں رہا کئے گئے۔

اس کی بعد کیو ڈی اے نے نواب خیر بخش مری مرحوم اور شہدا کی قبروں کو مسمار کرنے کا پلان بنایا تھا، جن کو مری متعبرین کے ایک بیان کے بقول دو مقامی اشخاص آزاد مری اور مراد مری کی پشت پناہی حاصل تھی جنہیں بھی ناکام بنایا گیا۔

26 اپریل 2021 کو ایک بار پھر چند لوگوں کی جانب سے نیو کاہان کی ارضیات پر قبضہ کی کوشش کی گئی اہلیان مری کیمپ نیو کاہان نے ایک بیان میں انکا ذکر کیا تھا شنید میں آیا ہے اس حوالے سے مری قبائلی معتبرین نے ایک میٹنگ بھی منعقد کی جس میں اس قبضہ میں ملوث اشخاص کو طلب کیا گیا جن میں مہراللہ مری، لونگ مری، غلام رسول مری اور صورت خان مری و دین محمد مری اور کئی دیگر کے نام بتائے گے ۔ ذرائع نے موصوف کو تفصیلات دیتے ہوئے انکی تصدیق کی کہ یہ عناصر قبضہ گیر گروپوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں اس کے علاؤہ نیو کاہان کی جنوبی طرف سے بھی ایک کام کا آغاز ہوا ہے اس سے قبل بھی جس طرح اوپر ذکر کیا گیا کہ خواتین نے احتجاج کیا تھا اسی طرف چند عناصر ایک روڈ کا کام کررہے ہیں، اسی زمین کو بہاول مری اور نعمت مری نے 35 اور 25 لاکھ میں ڈیل بھی کی ہے اسی زمین پر سنت اللہ نامی مری کا ذکر بھی کیا جارہا ہے کہ انہوں نے بھی رقم کی ڈیل کی ہے۔ نواب خیربخش مری مرحوم اور شہدا بلوچستان کی قبروں کا بھی لحاظ نہ رکھتے ہوئے مری کیمپ میں ایسے عناصر کی جانب سے قبضہ کرنا یا زمین فروخت کی کوشش کرنا چے معنی دارد؟

دعوے بلوچستان کی آزادی کا یہاں سے کئے جارہے ہیں اور زمینیں چند مری لٹیرے قبضہ کررہے ہیں اسے بلوچ قومی افواج کی کمزوری سمجھیں یا خاموشی کہ یہ اس طرح کررہے ہیں اگر بلوچ قومی تحریک آزادی کی افواج نے ان پر توجہ نہیں دی تو شک یہی ظاہر کیا جارہاہے کہ نیو کاہان کے رہائشیوں کو علاقہ خالی کرائی جائے گی اور یہاں سے بے دخل کیا نہ جائے ۔کب تک یہاں کے رہائشی ایسے قبضہ گیر گروہوں کو بھگاتے رہیں گے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں