لفظ ‘میں’ کو سمجھنا ہی کامیابی ہے – جی آر مری

494

لفظ “میں” کو سمجھنا ہی کامیابی ہے

تحریر: جی آر مری

دی بلوچستان پوسٹ

بچپن سے لے کر جوانی تک یعنی پرائمری اسکول کی زندگی سے لیکر یونیورسٹی کی زندگی تک میں نے ہمیشہ اور ہر کسی کو صرف ایک ہی لفظ پہ توجہ اور زور دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ خود کی پہچان کہلاتا ہے، یعنی “میں” جسے انگلش میں ” I ” کہتے ہیں۔ یعنی “Self”. میں سے مراد “Self respect” اور “Self Identity ” وغیرہ۔

میں نے ہمیشہ اپنوں سے، غیروں سے، دوستوں سے اور یہاں تک کہ دشمنوں سے بھی یہی سُنا ہے کہ خود کی پہچان بنا لو خود کی قدر کرو، اپنے دل یعنی اپنے ہی ضمیر کا سُنو اور اپنے ہی ضمیر کا کرو۔ خود کو اعلیٰ بنا لو، خود کی زندگی کو قیمتی سمجھو جو سچ میں قیمتی ہے۔ اپنے ہی زندگی کی قدر کرو۔ خود سے پیار و محبت کرو، اپنی عزت کا خیال رکھو ، اپنے آپ کو عزت دو، خود کو تکلیف سے بچا لو وغیرہ۔

اس طرح کی باتیں میں نے کتابوں میں بھی دیکھے ہیں۔ یہی باتیں میں نے اپنے اساتذہ سے بھی سُنے ہیں، یہی باتیں میں نے اپنے والدین کو بھی کہتے ہوئے دیکھے ہیں۔ یہی باتیں میں نے مُختلف “Motivational Speakers ” سے بھی سُنے ہیں۔ یہ الفاظ یعنی خود کی قدر کرنا، خود کو پہچان لینا اور خود ہی کا سُننا اور اُسی پہ ہی عمل کرنا دُرست ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟
ایسا اس لئے دُرست ہے کہ آپ جتنا اپنی قدر کریں گے اُتنا دوسروں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ایسا اس لئے ہے کہ آپ جب خود کو عزت دینا سیکھ لیں گے تو دوسروں کی بھی عزت کا خیال رکھیں گے۔ آپ جب خود کو تکليف سے بچا لیں گے تو آپ کبھی دوسروں کو بھی تکلیف نہیں دیں گے۔ آپ جب اپنے ضمیر کا سُن لیں گے تو آپ کبھی کسی اور کو بھی اُس کے دل کے فیصلے کے خلاف نہیں کریں گے۔ آپ جب خود پہ رحم کھائیں گے تو آپ کبھی کسی اور پہ ظُلم نہیں کریں گے۔

جو درد اور تکلیف آپ خود کو نہیں دے سکتے تو وہ آپ کسی اور کو کیسے دو گے؟ اگر آپ اپنا دل یعنی آپ اپنے جذبات اور خیالات کو توڑ نہیں سکتے تو آپ کسی اور کے جذبات کے ساتھ کیسے کھیل سکتے ہیں؟ جب خود کی قدر کرو گے تب دوسروں کو کیسے بے قدر سمجھو گے؟ جب خود کی زندگی سے پیار ہوگا تب کسی اور کی زندگی سے کیسے بیزار ہوسکتے ہو؟

اگر خود ظالم بنو گے تو پھر غیروں سے کیسے رحم کی توقع کر سکتے ہو؟ جب خود ناانصافی کرو گے تب غیروں سے کونسی انصاف کی توقعات رکھو گے؟ جب تک خود کو نہیں پہچان پاؤ گے تو پھر اپنوں اور غیروں میں کیسے فرق کر پاؤ گے؟ جب تک خود سے پیار نہیں کرو گے تب تک کسی اور سے بھی پیار نہیں کرسکتے۔ جب تک خود کی قدر نہیں کرو گے تب تک کسی اور کی بھی قدر کرنا نہیں سیکھ پاؤ گے۔ جب تک خود سے انصاف نہیں کرو گے تب تک دوسروں سے بھی انصاف کی توقعات نہیں رکھ سکتے۔ جب تک خود پہ رحم نہیں کرسکتے تب تک غیروں سے بھی رحم کی آس میں نہیں بیٹھ سکتے۔ جب خود تکليف نہیں سہہ لو گے تو دوسروں کی تکالیف کو بھی محسوس نہیں کر پاؤ گے۔

مگر اب ایک اور سوال وہ یہ کہ اب خود کی قدر کیسے کریں؟ خود کو کیسے پہچان لیں ؟ خود کو عزت کیسے دیں ؟

ہاں سچ میں یہ سوال تو میرے بھی زہن میں آ رہا ہے۔ دراصل ان سوالات کے جوابات ذرا مشکل ہیں مشکل اس لئے ہیں کہ ہم اپنے مطابق کُچھ بھی نہیں کر پاتے یہاں تک ہمارے زندگی کے اہم فیصلے بھی ہمارے والدین یا فیملی کے بُزرگ کرتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ہر طرح سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ اپنے زندگی کے مطابق کُچھ کرنا چاہیں گے تو آپ کے اپنے ہی زہن میں مُختلف سوال اُبھریں گے۔

جیسے کہ دنیا کیا کہے گی؟ لوگ کیا سوچیں گے؟ فیملی والے راضی ہونگے یا نہیں؟ کیا میں جو کر رہا ہوں وہ غلط ہے یا صیح؟ دوست کیا بولیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس طرح مختلف سوالات آپ کے زہن میں آئیں گے اور آپ جو کرنا چاہتے ہو اُسے کرنا ہی بھول جاؤ گے۔ پھر ان سوالات کو گہرائی میں سوچنے لگو گے جس سے کئی لوگ اپنی ذہنی توازن کھو بیھٹتے ہیں۔ اگر اس طرح کے سوالات کے ساتھ جکڑے رہو گے تو پھر کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچ پاؤ گے۔ آپ کے زندگی کا فیصلہ آپ سے بہتر کوئی اور کبھی بھی نہیں کرسکتا۔ آپ اپنے زندگی کی سفر اور منزل کے مالک خود ہیں آپ خود اپنے لئے ایک بہترین راستہ متعین کرسکتے ہیں، آپ کے سفر اور منزل کا اندازہ کوئی اور کبھی بھی نہیں لگا سکتا۔

آپ کے لئے جو اچھا ہے اور آپ کے لئے جو بُرا ہے اس کا آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ آپ اپنے ساتھ ظُلم کر رہے ہیں یا آپ اپنے ساتھ انصاف کررہے ہیں، اس کا آپ سے بہتر کوئی اور کبھی نہیں جان سکتا۔ آپ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں یا آزاد اس کا آپ سے بہتر کوئی اور کبھی بھی نہیں جان سکتا۔ آپ اپنے ساتھ وفا کر رہے ہیں یا خود کو دھوکہ دے رہے ہیں اس کا بھی آپ سے بہتر کوئی اور نہیں جان سکتا۔ تو اس سے بہتر ہے کہ دوسروں کی باتوں کو سنیں مگر جو بہتر آپ اپنے لیے سمجھتے ہیں وہی کریں۔ اگر آپ دوسروں کی باتوں میں الجھیں گے تو کبھی بھی کامیابی کی منزلیں طے نہیں کر سکیں گے۔ بلکہ پھر آپ کے زندگی گُزارنے کا کوئی مقصد ہی نہیں ہوگا بس صرف ایک بدترین غلامی کی زندگی گزاریں گے۔ زندگی کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے چاہے اسے کسی کا غلام بناؤ یا آزاد۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں