بلوچ ماؤں کو یتیم مت کرو – محمد خان داؤد

145

بلوچ ماؤں کو یتیم مت کرو

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ 

وہ ماں کیسے سو پائیگی جس کا بچہ پہلے کئی ماہ سے گم تھا اور گزشتہ رات مارا گیا
وہ ماں کیسے سو پائیگی جس کے گھر میں اس کے بچے کے کپڑے تو ہینگر میں ٹنگے رہے پر بچہ گھر پر نہیں تھا
وہ ماں اب کیسے سو پائیگی جس کا پہلے د ل بے تاب رہتا اور گزشتہ رات نیند ماری گئی!
وہ ماں کیسے سو پائیگی جس کے پاس راتیں پہلے بھی آتی تھیں پر گزشتہ رات،رات نہ تھی قہر تھا قہر جسے ایک معصوم ماں نے جھیلا ہے،سہا ہے،برداشت کیا ہے
اس ماں پر تو طوفان نوح گزر گیا اہلیان پاکستان کو خبر ہی نہیں،اہلیان پاکستان تو عورت مارچ کے مزے میں اور اس فکر میں غرق رہا کہ سینٹ کا چئیر مین سنجرانی بنے گا یا گیلانی
پاکستان سے بہت دور اک ماں نے نہیں پانچ ماؤں نے ماتم کیا
ان پر مٹی کے تودے نہیں پہاڑ گرے
اور ان کے پھولوں جیسے بچے،گھائل وجودوں کے ساتھ پتھریلی مٹی کی نظر ہوئے
پر پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر کل اور آج پاکستان کے پرنٹ میڈیا پر عورت مارچ کا رقص ہی چھایا رہا
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کل بلوچ ماؤں کے درد اور آنسوؤں سے ٹی وی اسکرین اندھی ہو جا تیں
اور آج اخبارات درد اور دکھ بھرے آنسوؤں سے پانی پانی ہو تے جس میں سب درد سما جاتا اور پورا ملک یہ جان پاتا کہ کون سی ماں کہاں کی ماں درد میں ما ری جا رہی ہے پر ایسا کچھ نہیں!
لیکر کے اس طرف سینٹ،این آر او،شبلی فراز ہیں
اور لکیر کے اُس طرف لہو لہو لاشیں،پتھروں میں دفن کی گئی لاشیں،جعلی پولیس مقابلے اور ماتم کرتی مائیں ہیں
وہ مائیں جو بیٹوں کو منتظر رہتی تھیں
آج وہ مائیں سراپا ماتم ہیں
وہ مائیں جو یہ جان ہی نہیں پائیں کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے
وہ مائیں جو اپنے بچوں کی بلائیں لیتی تھیں جو انہیں ڈانٹنے سے بھی ڈرتی تھیں کہ کہیں ان کے بچوں کا دل نہ دکھے
کل ان ہی ماؤں کے اک گولی دل میں ما ری گئی،دوسری گولی سینے میں اور تیسری گالی آنکھ میں!
وہ مائیں جو اپنے بچوں کے نفیس نازک خوبصورت گورے پیروں پر قربان جا تی تھیں اور انہیں ننگے پیر چلنے پر منع کرتی تھیں
کل ان ہی ماؤں کے نازک،نفیس خوبصورت بیٹوں کے خوبصورت جسموں پر بارود کی آگ برسائی گئی اور انہیں پتھروں اور پہاڑوں کے درمیاں گھسیٹا گیا
وہ بہنیں جو اپنے گم شدہ بھائیوں کے چہروں کو دیکھنے کو ترس گئیں تھیں
انہیں کل وہ چہرے نظر بھی آئے پر ویسے نہ تھے جیسے چہروں کے لیے رو تی بہنیں منتظر تھیں
وہ چہرے کیسے تھے؟شاید کوئی ماں!کوئی بہن ہوش میں آئے تو بتا پائے وہ چہرے کیسے تھے؟
وہ مائیں جو اپنے بیٹوں کی سب فرمائیشیں پو ری کرتی تھیں کل ان ماؤں کے بیٹوں کے ساتھ ان کے سارے ارمان بھی دفن ہو گئے!
وہ کوئی ایک ماں نہیں تھی
وہ کوئی ایک لہو لہو لاش نہیں تھی
وہ پانچ مائیں ہیں
اور وہ پانچ لاشیں ہیں
پر اب تو مجھے ایسا لکھنا چاہیے کہ
وہ دس لہو لہو لاشیں تھیں
کل پانچ پہاڑوں کے دامنوں میں دفنا دی گئیں
اور پانچ لاشیں ہمیشہ ہمیشہ مرنے کے لیے پیچھے رہ گئیں
ان لاشوں کو کون دفنائے کب دفنائے اور کیوں دفنائے
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس کیا پر ان پہاڑوں کے پاس بھی نہیں جو خاموش ہیں جو ماتم کدہ ہیں جو سب دیکھ رہے ہیں جو اندھے ہیں
اگر کوئی سمجھے تو وہ پانچ گالیا ں ہیں
پہلے ان ماؤں کو دی گئی
پھر ان بہنوں کو دی گئی
اور اب دھرتی بلوچستان کو دی گئی ہے
اور اگر کوئی نہ سمجھے
تو پھر وہ پانچ لاشیں ہیں جو دفنادیے گئے ہیں!
تووہ پانچ مائیں کیسے سو پائینگی جو خود کئی ماہ سے مصلوب تھیں
ان کے معصوم بیٹے ناحق قتل ہوئے
کیا وہ مائیں اب صلیب سے اتر آئی ہیں یا وہ اس صلیب پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مصلوب ہو چکی ہیں
وہ مائیں اب ہمیشہ ہمیشہ مصلوب رہیں گی،کیوں کہ ان کے نین منتظر تھے کہ ان کے اُٹھائے ہوئے بچے لوٹ آئیں گے اور وہ ان کے منھ چومیں گی ان کے گلے لگ کو بہت روئیں گیں
پر اس ملک میں ان ماؤں کو ایسی سزا دی گئی ہے کہ جس سزا میں وہ مائیں نہ تو اپنے بیٹوں سے مل پا تی ہیں نہ ان کے منھ چومتیں ہیں اور نہ ہی ان کے گلے لگ کر بہت رو پا تیں ہیں
وہ مائیں تو بس بے ہوش ہو جا تی ہیں
ان پر غشی کے دورے پڑتے ہیں
وہ ہوش میں ہی اس لیے آتی ہیں کہ وہ دوبارہ بے ہوش ہو جائیں
ان پر غشی اس لیے تا ری ہو جا تی ہے کہ وردی والوں نے ان کے پھولوں جیسے بیٹے بھونکتی بندوقوں سے قتل کر دیے ان ماؤں کی دلوں میں زلزلہ آگیا،وہ بلند و بالا عمارتوں کے جیسے ڈھ گئیں
وہ مائیں ما ری گئیں
ان کی نیندیں ما ری گئیں
پھر بھی اس ملک کو معلوم ہی نہیں کہ یہاں سے بہت دور بلوچستان کے پہاڑوں کی اُوٹ میں کیا کچھ ہوکر گزرا ہے؟!!
نہ اس ملک کی سیا ست کو پرواہ ہے
نہ دانش کو
پر افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ملک کے میڈیا کو بھی پرواہ نہیں کہ
لکیر کے اُس پار کیا ہوا
جہاں مائیں یتیم ہو رہی ہیں
اس ملک کو تو لکیر کے اِس پار کی پرواہ ہے کہ
سینٹ میں سنجرانی آتا ہے یا گیلانی
اگر سینٹ میں سنجرانی آ بھی جاتا ہے تو کیا وہ اپنے لبوں سے ایسی صدا دے پائیگا کہ
”بلوچ ماؤں کو یتیم مت کرو“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔