ماوند میں فوجی جارحیت میں نہتے مالدار لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے – بی این ایم 

178

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان کے طول و عرض میں جاری پاکستانی فوج کی جارحیت کی نئی لہر  پر تشوییش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی فوج کی جارحانہ کارروائیاں رونما ہورہی ہیں۔ تحصیل ماوند اور ہرنائی کے پہاڑی علاقوں میں  فضائی طاقت کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔  آواران میں کئی دنوں سے جاری ہے۔

ماوند میں پیر کی صبح 8 بجے پاکستانی فوج نے جارحیت کا رخ آبادی کی طرف موڑا۔ لوگوں کی مال مویشیاں لوٹی گئیں۔ گھروں سے خواتین اور بچوں کو حراست میں لے کر ہرنائی منتقل کیا گیا۔ ان کارروائیوں میں گن شپ ہیلی کاپٹرز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ کوہلو اور سبی کے درمیانی علاقوں بیجی کور،ڈونگان،باریلی اور کوریاک پر شیلنگ کی  جارہی ہے جس سے وہاں آباد مالداروں (چرواہوں) کو مالی اور جانی نقصان ہورہا ہے۔ اب تک کی مصدقہ اطلاع کے مطابق دو بھائی ہلاک ہوئے ہیں جو مقامی مالدار تھے۔ ان کی شناخت ’میران مری‘ اور ’موران مری‘ کے نام سے ہوئی ہے۔ دونوں کو حراست میں لینے کے بعد تشدد کیا گیا اور تشدد کے بعد  گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ دونوں کی لاشیں ہرنائی میں انتظامیہ کے حوالے کی گئی ہیں جہاں انہیں شناخت کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کوریاک کے علاقے میں فوجی جارحیت کا زور زیادہ ہے۔ اس جارحیت میں بڑی تعداد میں پیدل فوج ، گاڑیاں اور توپ خانے استعمال ہورہے ہیں جب کہ 8 کے قریب گن شپ ہیلی کاپٹرز مختلف مقامات پر شیلنگ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا خواتین اور بچوں کو حراست میں لیا گیا ہے جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ ان میں بوڑھی عورتیں اور شیرخوار بچے بھی شامل ہیں جنہیں خوراک، گرم کپڑوں اور دوائیوں کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کو چاہئے کہ ان کی رہائی کے لیے فوری کوشش کریں۔

ترجمان نے کہا کہ آواران میں بھی کئی دنوں سے فوجی بربریت جاری ہے۔ فوج نے آواران کے مختلف علاقے جن میں دراسکی،وہلی، تیرتیج،گواش شامل ہیں،کو مکمل محاصرے میں لیا ہوا ہے اور لوگوں کو مسلسل تشدد کا نشانہ جارہا ہے۔

بی این ایم ترجمان کے مطابق اس طرح کی کارروائیوں میں مقامی لوگوں کی مال مویشیوں کو لوٹا جاتا ہے، فصل اور جھونپڑیاں تباہ کی جاتی ہیں جس سے انہیں دوبارہ آبادکاری کی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ اس طرح کی جارحانہ کارروائیوں کے بعد لوگ بڑی تعداد میں شہروں کی طرف ہجرت کررہے ہیں جہاں وہ آئی ڈی پیز  بن کرکسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں وہاں بھی مسلسل فوجی جارحیت کا سامنا ہے۔آئی ڈی پیز کی آبادیوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور مردوں کو جبری گمشدہ کیا جاتا ہے۔