بلوچستان: چین پاکستان بڑھتے تعلقات کے تناظر میں – یوسف مراد بلوچ

528

بلوچستان: چین پاکستان بڑھتے تعلقات کے تناظر میں

تحریر: یوسف مراد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ مضمون پہلی بار جرمن میگزین پوگرم کے جون 2018 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس کا انگلشن ترجمہ مصنف نے خود کیا تھا، جو کہ بلوچستان ٹائمز میں شائع ہوئی تھی۔ گوادر کی موجودہ استحصالی باڑ کی تعمیر کے حوالے سے مضمون میں پیشنگوئی کی گئی تھی۔ اس تناظر میں آج اس کا اردو ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو:
یہ چین کی طرف سے دنیا کی اقتصادی ماڈل کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کی طرف چین کے مضبوط ترین اقدامات میں سے ایک ہے اور اس فرنٹ پر پاکستان سے بہتر پارٹنر اُس کیلئے کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔ پاکستان کیلئے اس آفر میں منافع بخش تجارت کے راستے، وسائل اور اسٹریٹجک اڈے ہیں۔ لیکن ان بڑے منصوبوں کے سب سے بڑے نقصان اٹھانے والے بلوچستان کے لوگ ہوں گے۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) ، جسے جدید ریشم روڈ (نیو سلک روڈ) بھی کہا جاتا ہے، چین کا کثیر الجہتی معاشی اقدام ہے جو چین کو ایشیا، افریقہ اور یورپ سے جوڑنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اسے چائنیز مارشل پلان، یا آسان الفاظ میں، چین کا ماسٹر پلان جو کہ عالمگیریت کی تشکیل نو کرکے اپنی خواہش کے مطابق موڑنا چاہنا ہے۔ اس منصوبے کو پہلے ہی تاریخ کے سب سے بڑے انفراسٹرکچر اور سرمایہ کارانہ منصوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو اپنی تسلط کو بڑھانے کی چینی خواہشات کو ظاہر کرتا ہے۔

لفظ “بیلٹ” سے مراد زمینی گزرگاہیں ہیں اور “روڈ” سے مراد میری ٹائم سلک روڈ ہے جو سمندری راستوں کی گزرگاہ ہے۔ ان میں سے ایک زمینی راہداری چین کے مزاحم ایغور لوگوں کے سنکیانگ خطے سے شروع ہوتی ہے، جو پاکستان کے زیر قبضہ متنازعہ علاقہ گلگت بلتستان سے ہوتے ہوئے پاکستان کے مزاحمتی صوبہ بلوچستان کی گوادر بندرگاہ پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ یہ تجارتی راستہ پاکستان میں نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تشکیل کرتا ہے، جسے سی پی ای سی (سی پیک) بھی کہا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس پورے منصوبے پر چین کو کئی کھرب ڈالر لاگت آئے گی۔ تاہم، اس کی بڑی قیمت سنکیانگ کے مسلم اقلیتی ایغوروں اور پاکستان میں بلوچ عوام کو جدید استحصال، ظلم و ستم، امتیازی سلوک اور پسماندگی کی آمد کے ساتھ معاشی، معاشرتی اور ثقافتی آزادی کھو جانے کی صورت میں ادا کرنا ہوگی کیونکہ نہ چین اور نہ ہی پاکستان ان کے حقوق پر غور کرے گا۔

بلوچ ان لوگوں کا ایک گروہ ہیں جو بلوچستان کے منقسم خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچوں کے اپنے الگ رسم و رواج، ثقافت اور روایات ہیں۔ وہ ایک انڈوایرانین زبان بولتے ہیں جسے بلوچی کہتے ہیں۔ بہر حال، بلوچوں کا اپنا علاقائی خطہ ہے اور وہ علاقائی یا لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر دوسرے نسلی گروہوں یا اقوام کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتے ہیں۔

پاکستان میں بلوچ مسئلہ کا تاریخی پس منظر

یہ تنازعہ انیسویں صدی کے آخر سے جاری ہے جو برطانیہ کا بلوچستان سے افغانستان تک محفوظ راستہ تلاش کرنے کی کوششوں کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ انگریزوں نے ابتدا میں بلوچستان کو برطانوی نوآبادیاتی اثرورسوخ میں لانے کی کوشش کی، جبکہ بلوچستان نے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم رہنے کی کوشش کی، مگر جلد ہی محدود جنگ کے بعد یہ برطانوی اثر و رسوخ میں آگیا۔

1948 میں، بلوچستان کو پاکستان نے الحاق کرلیا تھا، تب سے اب تک پاکستانی حکومت کے خلاف متعدد بغاوتیں ہوچکی ہیں۔ اور بلوچوں کے مطالبات میں وسائل میں زیادہ حصے سے لے کر خود مختاری تک اور کچھ معاملات میں الگ ریاست کا قیام شامل ہیں۔

نوآبادیاتی حکومت نے انڈیجینس معاشروں اور کالونیوں پر طاقت کا ضرورت سے زیادہ اور سفاکانہ ریاستی نظام کا استعمال کیا۔ پاکستان کو نوآبادیاتی حکمرانی کا برطانوی ڈھانچہ ورثے میں ملا جس کا مرکز فوجی – بیوروکریٹک اسٹیبلشمنٹ میں ہے۔ یہ مکمل طور پر فعال جمہوریت کی تیاری کے عمل میں رکاوٹ بنا۔ یوں تو، بلوچستان کو ہمیشہ سے ہی ایک ایسی فوج کی کالونی کی حیثیت سے سمجھا جاتا رہا ہے، جس پر کبھی کبھی فوج نے براہ راست حکمرانی کی اور بعض اوقات پس منظر سے لگاموں کو کھینچتا رہتا تھا۔

پاکستان ۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ ۔ مارشل پلان کا فطری اتحادی

چین پاکستان تعلقات کو ایک طویل عرصے سے سدا بہار دوستی کا نام دیا جاتا ہے، جسے اکثر پہاڑوں سے اونچا اور سمندروں سے بھی گہرا بتایا جاتا ہے۔ یہ رشتہ اس وقت مضبوط ہونا شروع ہوا جب پاکستان نے 1950 میں عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کیا۔ 1966 ء سے 1972 کے دوران یہ رشتہ ایک اسٹریٹجک اتحاد کی شکل اختیار کرتا گیا جو زیادہ تر ہندوستان کے مابین مشترکہ عداوت پر منحصر تھا۔ اس وقت تک پاکستان 1947، 1965 اور 1971 میں ہندوستان کے ساتھ پہلے ہی تین جنگیں لڑ چکا تھا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی شکل میں علیحدگی ہوگئی تھی۔

اس عرصے میں، چین نے بھی ہندوستان کے خلاف 1962 میں جنگ لڑی تھی جب ہندوستان کی جانب سے تبتی روحانی پیشوا دلائی لامہ کو پناہ دینے کے بعد متنازعہ ہمالیائی سرحد پر کشیدگی بڑھ گئی تھی۔

یہ چین پاکستان اسٹریٹجک اتحاد دونوں ملکوں کے پائیدار فوجی اور اسٹریٹجک تعاون کی بنیاد تھی جو ایٹمی ٹیکنالوجی، فوجی ہارڈویئر اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں مدد کرتا تھا، جو اکثر ہندوستان کے خلاف مرکوز ہوتا تھا۔ اس کے نتیجے میں، چین پاکستان کو اسلحے کا سب سے بڑا سپلائر بن گیا۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تعلقات کبھی بھی ایسا کثیرالجہتی سماجی و معاشی ، عوام سے عوام اور جغرافیائی قربت کے نہیں تھے جیسا کہ مجوزہ CPEC منصوبے میں سوچا گیا ہے۔

پاکستان، چین کی شکل میں ہندوستان کے خلاف اتحادی بنانے کے علاوہ ، گلگت بلتستان کے علاقے پر بھی جواز حاصل کرنے کی امید کرتا ہے جو بھارت اور پاکستان کے مابین متنازعہ ہے۔ پاکستان نے ان منصوبوں کے ذریعے گوادر کی اسٹریٹجک لحاظ سے اہم بندرگاہ میں چین کی موجودگی کو ہندوستان کے خلاف علاقائی اور اقتصادی سلامتی کی ضمانت سمجھتا ہے۔ اسی طرح ، عدم استحکام اور معاشی کمزوری میں، پاکستان کے لئے چین بہترین ٹکٹ ہوا ہے۔

بلوچستان: معاشی استحصال کی ایک داستان

پاکستان کا صوبہ بلوچستان تاریخی گریٹر بلوچستان خطے کا صرف ایک حصہ ہے جو برطانوی نوآبادیاتی دور میں قبضہ کیا گیا اور ایران ، پاکستان اور افغانستان کے مابین تقسیم کیا گیا تھا۔ پاکستانی حصہ جرمنی جتنا بڑا ہے اور ملک کے کل رقبے کا 44٪ حصہ بنتا ہے۔ یہ بہت کم آبادی والا اور معدنیات اور گیس کے وسائل سے مالا مال ہے۔

اس کے باوجود یہ دنیا کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ بمشکل بچیس فیصد آبادی خواندہ ہے، اور آبادی کے صرف سات فیصد لوگوں کو نلکے کے پانی تک رسائی حاصل ہے، اسکی بھی پینے کے لئے موزوں رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ تقریبا ترانوے فیصد آبادی اپنا پانی کنویں اور تالابوں سے حاصل کرتی ہے اور اسی وجہ سے پانی سے پیدا ہونے والی اکثر بیماریوں سے ہر ماہ متعدد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 2016 میں غربت سے متعلق پاکستان کی پہلی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں اکہتر فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ [بلوچستان میں] دوران زچگی اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

سی پیک: سماجی و معاشی استحصال کی توسیع

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی یا سی پیک) کو پاکستان کی معاشی ترقی میں بطور گیم چینجر کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو پاکستانی بدحال معیشت میں خوشحالی کا ذریعہ پیش کیا جارہا ہے۔

سرکاری بیانیہ سی پیک کو صوبہ بلوچستان میں پچھلے 70 سالوں کی احساس محرومی کے خاتمے کے لئے ایک علاج کے طور پر دیکھ کر اس سے مقامی لوگوں کی زندگی کو بہتر طور پر بدلنے کا دعویدار ہے۔ پاکستانی سول حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ دونوں نے اس چمتکار کا سہرا لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تاہم، یہ تو پہلے ہی طے ہوچکا ہے کہ توسیع پسندانہ میگا پروجیکٹس کے ذریعہ مقامی لوگوں کے معیار زندگی کو کبھی بہتر نہیں بنایا گیا ہے۔

مصنف احمد کلمیر نے بلوچستان ٹائمز کے اپنے مضمون ”سی پی ای سی: گیم چینجر یا آفت؟“ میں بندرگاہ کی توسیع کے منفی نتائج کا اندازہ لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ماہی گیری پر زندگی بسر کرنے والے گوادر کے لوگوں کیلئے بندرگاہ کو گہری سمندری بندرگاہ تک توسیع دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مستقبل میں، وہ اپنی روزی سے محروم ہوجائیں گے، کیونکہ روایتی ماہی گیری کشتیاں ، لکڑی کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں ، جنہیں ”یدّار۔ یکدار“ کہا جاتا ہے اور ساحلی علاقے کے بیشتر ماہی گیر، ماہی گیری کی پرانی تکنیک رکھتے ہیں جو بجائے گہرے سمندر کے صرف مقامی علاقوں میں ممکن ہے۔ گہری سمندری بندرگاہ کی ترقی کے ساتھ ہی، ان چھوٹی کشتیوں کیلئے شکارگاہ کی وسیع ایریا پہلے ہی شکار کیلئے ناقابل استعمال ہوچکا ہے۔ بندرگاہ کے ماحولیاتی اثرات نے اس علاقے میں مچھلیوں کی چند اقسام کو پہلے ہی ناپید بنا دیا ہے۔

ایسے اقدامات نہیں لی گئی ہیں جو مقامی لوگوں کی روزگار کو سی پیک اور بندرگاہ کی توسیع کے ساتھ ضم کردیں بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ مقامی لوگوں کو ترقی سے دور رکھا جائے۔ ایسی ترقی جسکی بدولت مقامی بلوچ عوام اپنی روایتی زندگی جاری نہیں رکھ سکیں گے۔

مزید یہ کہ غیر ملکی ورکرز کی اس متوقع آمد کے نتیجے میں پہلے سے پسماندہ مقامی لوگوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ چین کے منصوبوں میں گوادر کیلئے ایک نئے ضلع یعنی فنانس ڈسٹرکٹ بھی شامل ہے جس میں سال 2022 تک پانچ لاکھ کے قریب چینی آبادکار لانے کا منصوبہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ بغیر رکاوٹ کے آگے بڑھتا ہے تو صرف اگلے چار سالوں کے دوران گوادر میں ہر ایک مقامی بلوچ کے لئے آٹھ کے لگ بھگ چینی موجود ہوں گے۔ یہ سب کچھ ذہن میں رکھتے ہوئے انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ سی پیک کوئی حقیقی معاشی ترقی کے انجن نہیں بلکہ سراسر استحصال کا پروجیکٹ ہے۔

اسٹریٹجک طور پر گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے اہم گیٹ وے کو چلانے کے معاہدے کو ایک مشکوک خفیہ انداز میں ایک غیر معروف کمپنی چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (سی او پی ایچ سی) کو نامعلوم سرٹیفکیٹ کے ساتھ دیا گیا تھا۔ اس کمپنی کو چین کی سرکاری کمپنی کے طور پر خیال کیا گیا تھا۔ گوادر میگا پروجیکٹ میں مقامی یا صوبائی حکومت کی کوئی شرکت اس وقت نہیں تھی جب سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں اس منصوبے کا تصور دیا تھا، اور نہ اس وقت تھی جب او بی او آر OBOR کو بلوچستان میں بطور سی پیک متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سے چین کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ یہاں بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی موجودگی کو مزید بڑھا سکے۔

او بی او آر: معدنی وسائل کے استحصال کے لئے سڑکیں

بلوچستان میں ہمیشہ سے کمزور انفراسٹرکچر رہا ہے؛ ریل لائنیں اور سڑکیں صرف فوجی مقاصد یا معدنیات کے استحصال کے لئے بنی تھیں۔ جب بندرگاہ کے پہلے مرحلے کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو، اسی وقت بلوچستان کی پہلی دوہری شاہراہ بھی 2004 میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ شاہراہ بندرگاہ کے شہر گوادر کو کراچی سے جوڑتی ہے، جو پاکستان کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔

اس ساحلی شاہراہ کی تعمیر سے پہلے گوادر کے مقامی لوگوں ایک خراب سڑک کے راستے کراچی جانے میں دو سے تین دن تک بھی لگتا تھا۔ متوقع معاشی خوشحالی اور بظاہر ایک جائز منصوبے کے باوجود، گوادر کی گہری سمندری بندرگاہ اور ترقیاتی منصوبے جنہوں نے بالآخر 2013 میں سی پیک کی شکل اختیار کی، پہلے ہی بیزار مقامی بلوچ عوام اور وفاقی حکومت کے مابین تنازعات کی ہڈی بن گئے۔

مقامی بلوچوں کو خوف ہے کہ سی پیک اور نئے بنیادی ڈھانچے کا بہانہ بنیادی مقصد بلوچستان میں معدنی وسائل کا استحصال کرنا ہے۔ ایک اور چیز جو اس خوف کو بڑھا رہی ہے وہ 2017 میں پاکستان اور چین کے مابین وہ معاہدہ ہے جو پاکستان میں یورینیم وسائل کی تلاش میں تعاون کرنے کا عزم ہے۔

اسی طرح کے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کئے گئے کئی دہائوں پر مشتمل پاکستانی استحصال اور فوجی آپریشن اس عدم اعتماد کی جڑیں ہیں۔ لہذا 2004 تک، جب بندرگاہ کا منصوبہ ابھی تک ابتدائی مراحل میں تھا، ان منصوبوں کی مخالفت کرنے والے مقامی بلوچ عوام اور وفاقی حکومت کے مابین ایک نئی تنازعہ پیدا ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں لاپتہ، جبری بے گھر اور ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہوئیں۔

سی پیک: بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے لئے ایک راہداری

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ چین 2001 سے گوادر، بلوچستان میں موجود ہے۔ گوادر کو قدرتی طور پر گہری گرم پانی کی بندرگاہ اور مشرق وسطیٰ اور آبنائے ہرمز سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے اسٹریٹجک اہمیت حاصل ہے۔ گوادر میں چین کا ایک ممکنہ بحری اڈہ پورے خطے میں اسٹریٹجک توازن بدلنے میں معاون ہوگا۔

پاکستانی فوج پہلے سے تعینات شدہ ڈویژنوں کے علاوہ صرف سی پیک پروجیکٹس کے لئے 15000 اہلکاروں کا ایک اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن کا اضافہ کر رہی ہے۔ لہذا بلوچستان کے لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ سیکیورٹی فورسز کی بڑھتی تعیناتی نہ صرف سی پیک کے ذریعے چینی مصنوعات کی نقل و حمل کو محفوظ بنانا تھا بلکہ قدرتی وسائل کے استحصال کو آسان بنانا تھا۔

ان بھاری تعیناتیوں نے پہلے ہی انسانی حقوق کی صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ فوج نے گوادر ٹاؤن کو عملی طور پر گھیرے میں لے کر اسے مبینہ طور پر علیحدگی پسند عسکریت پسندوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہاں ایک باڑ لگانے اور گوادر کی قلع بندی کے منصوبے ہیں۔ لوگوں کو شہر میں داخل ہونے کے لئے ایک ریزیڈنسی پاس دکھانا ہوگا۔ مقامی باشندے سمجھتے ہیں کہ ریزیڈنسی کارڈ ریاست کو ان کی خواہش کے مطابق ڈیموگرافک تبدیلی لانے کے قابل بنائے گا۔ احتجاج کرنے والے کسی بھی باشندے کا (ریزیڈنسی کارڈ) رہائشی کارڈ مسترد کیا جاسکتا ہے، تاکہ انہیں اپنے ہی شہر میں داخل ہونے سے مؤثر طریقے سے روکا جاسکے۔ اس طرح کی ڈیموگرافک یا آبادیاتی تبدیلی صرف چین کے خواہشوں کی نشاندہی کرے گی تاکہ وہ مقامی لوگوں کو زندگی کے ہر پہلو سے خارج کردے۔

چین مخالف جذبات کا ایک اور ذریعہ کمیونٹیز کی زبردستی بیدخلی اور نقل مکانی ہے، جس کا مقصد چینی کارکنوں اور انفراسٹرکچر کے تحفظ کے لئے بلوچستان میں لائے جانے والے سیکیورٹی اپریٹس کے لئے راستہ بنانا ہے۔ بہت سے دیہاتوں میں کئی مکانات کو پاکستانی فوج کے اضافی اہلکاروں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ بس لوگوں کو گھروں سے نکال کر ان پر قابض ہوجاتے ہیں۔ چونکہ فوج کی ایک بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا ہے اور ان کے لئے رہائش کی تیاریاں نہیں ہیں لہذا ان کے لئے بہترین آپشن ان لوگوں کے گھروں پر قبضہ کرنا ہے جو ان منصوبوں کے خلاف ہیں۔

اس کا مقامی آبادی پر دو دھاری اثر پڑتا ہے۔ بنیادی طور پر اس سے خوف کے ماحول میں اضافہ ہوتا ہے اور ان منصوبوں کے خلاف مزید اختلاف کو دبانے میں مدد دیتی ہے۔ دوم، یہ بڑی تعداد میں تعینات کئے گئے اہلکاروں کی رہائش کا مسئلہ حل کرتا ہے۔ اس سے [لوگوں میں] نگرانی اور اہلکاروں کی نظر میں رہنے کا احساس پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ سیکیورٹی فورسز محلوں کے اندر اپنی روزمرہ کی کارروائیاں انجام دیتی ہیں۔

طلباء اور سیاسی قائدین کی ایک بڑی تعداد جنہوں نے ان استحصالی منصوبوں کے خلاف بات کی تھی وہ یا تو مارے گئے ہیں یا انھیں لاپتہ کردیا گیا یا پھر بلوچستان سے بھگایا گیا۔

ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان (ایچ آر سی بی)، جو سویڈن میں ایک انسانی حقوق گروپ ہے، نے سال 2017 کی اپنی رپورٹ میں صرف اُسی سال 1091 افراد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ دی ہے۔ ایچ آر سی بی کی رپورٹس کے مطابق، سال 2018 کی پہلی ششماہی میں، سیکیورٹی فورسز نے مکران کے تین اضلاع اور ملحقہ ضلع آواران میں 135 افراد کو ماورائے عدالت ہلاک کیا تھا، جو ضلع گوادر سے ملحق ہے جہاں سی پیک پر کام ہورہا ہے۔ اس عرصہ میں اسی چار اضلاع سے مزید 541 افراد لاپتہ ہوگئے۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں