کریمہ بلوچ مبینہ قتل: کوئٹہ میں احتجاجی ریلی اور مظاہرہ، انتظامیہ کی رکاوٹیں

438

کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مظاہرین کو دھمکیوں اور ہراساں کرنے کیخلاف کوئٹہ میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ انتظامیہ کیجانب سے رکاوٹیں کھڑی کرکے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی گئی۔

معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف بلوچستان سمیت بیرون ممالک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر آج بروز ہفتہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان کے دیگر علاقوں آواران، مند، دشت، نوشکی میں پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیخلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

کوئٹہ انتظامیہ نے پریس کلب کی حدود میں مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، تاہم مظاہرین نے پولیس کی تمام تر رکاوٹیں پار کرکے ہائی کورٹ کے سامنے پہنچ کر دھرنا دیا۔

ریلی میں شریک ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ریلی کا روٹ کوئٹہ پریس کلب سے ہائی کورٹ تک اپنا احتجاج ریکارڈ کرنا تھا لیکن انتظامیہ نے ریڈ زون کے بہانے ریلی کو روکنے کی کوشش کی۔

ہائی کورٹ کوئٹہ کے سامنے خواتین، بچوں اور طلباء کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں زنجیریں اور آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر کی یہ صورت حال ہے کہ آواز اٹھانے والوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، خواتین کو اغواء کی دھمکیاں دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کوئٹہ میں انتظامیہ نے ہمارے پرامن اور منظم احتجاج کو منتشر کرنے کی کوشش کی، اگر کوئٹہ میں یہ حال ہے تو آپ سوچیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سیکورٹی فورسز کیا کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر سمیت کئی علاقوں میں احتجاج کرنے والوں کو دھمکیاں دی جاری ہیں۔ ہمارے لیڈروں کو قتل کرکے  وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ خاموش رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں بھی میڈیا بلیک آؤٹ ہے جس طرح ہمارے زبانوں پر تالے لگے ہیں اسی طرح ہائی کورٹ پر بھی تالے لگنے چاہیے، یہ اسمبلی کٹھ پتلی ہے۔

کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ریلی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما آغا زبیر، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر حئی بلوچ، سماجی کارکن حمیدہ نور، وکلاء رہنماء خالدہ ضیاء سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔