مچھ واقعے کیخلاف کوئٹہ میں دوسرے روز احتجاجی دھرنا جاری

412

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری کیجانب سے مشرقی بائی پاس پر دوسرے روز احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ دھرنے میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

دھرنا ہزارہ برادری کی جانب سے گذشتہ روز مچھ میں ہزارہ کانکوں کے قتل کیخلاف دیا جارہا ہے۔ دھرنے کے باعث مغربی بائی پاس آمد و رفت کیلئے مکمل طور پر بند ہوچکی ہے۔

کوئٹہ کے خون جما دینے والے سخت سردی کے باوجود لواحقین اور ہزارہ برادری کا میتوں کے ہمراہ دھرنا اور احتجاج جاری ہے۔

مچھ میں قتل ہونے والے ہزارہ برادری کے 10 کان کنوں کے قتل کا مقدمہ تاحال درج نہ ہوسکا۔ سربراہ مجلس واحدت مسلمین نے میتوں کی تدفین سے انکار کردیا۔ ایم ڈبلیو ایم کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آزاد تحقیاتی کمیشن اور انصاف کی یقین دہانی تک تدفین نہیں کی جائے گی۔

قبل ازیں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی قادر نائل نے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد میتوں کو مچھ سے کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن کے ولی العصر امام بارگاہ منتقل کرایا۔ مقتولين کی تدفين آج دوپہر 1 بجے ہزارہ ٹاون قبرستان میں متوقع تھی۔ ہزارہ قومی جرگہ اور مجلس وحدت مسلمین کا کہنا ہے یقین دہانی اور قاتلوں کی گرفتاری تک مغربی بائی پاس پر دھرنا جاری رہے گا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے واقعہ کے خلاف اسمبلی میں آواز بلند کرنے کا بھی اعلان کيا ہے۔

اظہار یکجتی کیلئے بلوچستان بار کونسل نے آج بلوچستان بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان بار کونسل کے وائس چیرمین قاسم علی گاجزئی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سانحہ مچھ میں مزدور محنت کشوں کے قتل اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر آج بلوچستان بھر میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ہزارہ کانکنوں پر حملے میں پاکستانی خفیہ ادارے ملوث ہیں – بی ایل اے سربراہ

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے مچھ میں ہزارہ کان کنوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ روئٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم سے منسلک اعماق نیوز ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان میں 10 کان کنوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی گئی۔

واقعے پر بلوچستان حکومت اور عسکری اداروں کو سخت تنقید کا سامنا ہے، مختلف شعبوں سے وابسطہ افراد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: مچھ واقعہ پر سیاسی اور سماجی شخصیات کا شدید ردعمل

عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ چاہے ہزارہ شیعہ کی نسل کشی ہو یا جبری طور پر گمشدہ کرنے کا سلسلہ یہ سب ریاستی اور غیر ملکی سرمائے کے ساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ ان کے لئے بلوچستان کی زمین اور معدنیات وہاں بسنے والے لوگوں سے زیادہ اہم ہیں۔ گماشتہ حکمران طبقات و ریاست و نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد ناگزیر ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن میر سراج لہڑی نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے متعلق ٹویٹ میں کہا کہ ایک طرف بلوچستان میں بے دردی سے لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے تو دوسری طرف وزیر اعلیٰ جام کمال دبئی میں موسم کے مزے لے رہے اور بس ایک ٹویٹ سے اپنا فرض پورا کر رہے ہیں۔

میر سراج لہڑی کے ٹویٹ کو بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ وہ بھی دبئی میں۔