مشکے :خواتین کا پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ہراساں کیے جانے اور جبری مشقت کے خلاف احتجاج

175

بلوچستان کے ضلع آواران کی تحصیل مشکے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے اور بدسلوکی کے خلاف خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فورسز علاقے سے مردوں کو جبری طور پر حراست میں لے رہی ہیں، انہیں جسمانی مشقت کا نشانہ بنا رہی ہیں اور بلوچ آزادی پسندوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔

مظاہرین کے مطابق یہ صورت حال کئی عرصے سے برقرار ہے، علاقے کے مردوں کو باقاعدگی سے پاکستانی فوجی کیمپوں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں وہ تشدد اور جبری مشقت برداشت کرتے ہیں۔

مزید برآں کچھ افراد پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں حراست میں لئے جانے کے بعد لاپتہ کردئے گئے ہیں۔

خواتین کے مطابق رواں سال سیکورٹی فورسز نے تین افراد سجاد اعظم، ولی جان اور حاصل محمد حسن کو کیمپ بلانے کے بعد جبری لاپتہ کردیا ہے جو تاحال منظرعام پر نہیں آسکے ہیں-

مشکے کی خواتین، جن میں سے اکثر زیر حراست یا لاپتہ افراد کے اہلخانہ ہیں، بلوچ تنظیموں بالخصوص بلوچ یکجہتی کمیٹی سے اپنے حالت زار کا ازالہ کرنے اور ان کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

بڑھتی ہوئی صورتحال کے ردعمل میں بلوچستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمیع دین بلوچ نے پاکستانی فوج کے اقدامات کی مذمت کی۔ انہوں نے مشکے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنے ویڈیو بیان میں مشکے احتجاج پر روشنی ڈالی جس میں مقامی لوگوں کو جبری مشقت اور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا بھی شامل ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

احتجاج کی پرامن نوعیت کے باوجود، خواتین کا دعویٰ ہے کہ ان کی شکایات سننے کے بجائے انہیں پاکستانی فورسز کے ایماء پر مقامی ڈیتھ اسکواڈز کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

سمیع دین بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ مشکے کے لوگوں کی انصاف اور ظلم سے آزادی کی جدوجہد میں مداخلت کریں اور ان کی حمایت کریں۔