ماؤں کا تعاقب کرتی بندوق گردی – محمد خان داؤد  

127

ماؤں کا تعاقب کرتی بندوق گردی

 تحریر : محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ 

میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ نئے سال میں غم کو قلم بند نہیں کروں گا
گیت لکھوں گا،ناچوں گا،گاؤں گا!
پر نئے سال کا نیا سورج بھی ہمیں وہی کچھ دے رہا ہے، دکھا رہا ہے جو ہم گزریل سال میں دیکھ آئے ہیں
جب کوئی خوشی کے گیت گانے نی دے،خوشی کے گیت لکھنے نی دے،اور ناچنے نہ دے
تو ہم جیسے آدھے پڑھے لکھے لوگ کیا کریں؟

وزیر اعظم لنگر خانے میں جا کر ایک نوالہ کسی بوڑھے کے ساتھ دال کا لیتا ہے پورے میڈیا میں واہ واہ کا بدتمیز شور شروع ہوجاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم آج بھی ان سلطانوں کے دور میں رہ رہے ہیں جو سلطان اپنے خاص مشیروں اور وزیروں کو حکم دیتے تھے کہ ان کی تشہیر کی جائے اور شیدا ٹلی جیسے وزیر موجود ہو تے ہیں اور ان کی زباں نہیں تھکتی یہ قصیدے پڑھتے پڑھتے کہ
”خان ایسا ہے،خان ویسا ہے،خان یہ کرتا ہے، خان وہ کرتا ہے،خان فقیر ہے،خان ملنگ ہے“

یہ بکواس اور ایسی کئی بکواسیں پورا دن اور اس سے اگلا دن الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں وزیر اعظم کا دال سے نوالہ لیا ہاتھ وہی ٹہر جاتا ہے کئی فلیش لائیٹس جلتے،بجھتے ہیں کئی کیمرہ وہیں کے وہیں کھڑے رہتے ہیں اور وہ تشہیر کی جا تی ہے کہ پرانے دور کے سلطان بھی اپنی قبروں میں ماتم کرتے رہ جا تے ہیں
کیوںکہ پرانے سلطانوں کے پاس شیدے ٹلی جیسے وزیر نہ تھے،ان کے پاس فواد چوہدری جیسے مشیر نہ تھے،اور ان کے پاس وہ کتے نہ تھے جو اسمبلی میں بھی غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہیں
اور ملک کے وزیر اعظم کی وہ تشہیر ہو جاتی ہے کہ جو انہوں نے خواب و خیال میں بھی نہ سوچی ہو گی اور نہ دیکھی ہو گی!

پر جب ایف سی کے اہلکاروں کی گولیاں کا شکار ہو کر حیات بلوچ تربت کی تپتی ریت پر گرتا ہے تو اسے کون سا میڈیا دکھاتا ہے؟اسے کون سا اخبار چھاپتا ہے؟اس کی تصویر کن اخبار ات کی زینت بن کر حکمرانوں کی نیند یں خراب کرتا ہے؟اس ماں کے غم کو کہاں جگہ ملتی ہے جب اس ماں کے حیات کی حیات چھین لی جا تی ہے تو اس کے دل میں پہلا احساس یہی جاگتا ہے کہ
”خدا ہے!“
پر کہاں اسے وہ نہیں معلوم اس لیے وہ اپنے مردہ خون آلود بیٹے کے پاس بیٹھ کر آکاش کی طرف ہاتھ بڑھا دیتی ہے اور وہ جان جا تی ہے کہ خدا بھی ہے تو امیروں کا،سرداروں کا،بندوق برداروں کا
پر خدا نہیں ملتا۔

پر یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا کہ جب بندوقوں کے بند منہ کھلتے ہیں تو اس سے بس وہ وجود گھائل نہیں ہو تے جو ان بندوقوں کے بارود کو سہہ پاتے ہیں اور گھائل ہو کر ایسے زمیں پر گرتے ہیں جیسے کوئی گھائل کونج!
پر ان گھروں میں مقتول کونجوں کا ذکر کون کریگا جن کو بھونکتی بندوقیں تو گھائل نہیں کرتیں پر وہ بھی ایسے ہی گھائل ہو کر گھروں میں گر جا تی ہیں جیسے تربت کا حیات بلوچ جیسے اسلام آباد کا اُسامہ تسی!
بندوقیں بھی وہی!
بارود بھی وہی!
ہاتھ بھی وہی!
تلاش بھی وہی!
مائیں بھی وہی!
دکھ،غم،ہجرِ یاراں بھی وہی!
آنسو بھی وہی!
”مائے ئی نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دے حال نی!“
جیسی صدا بھی وہی
خدا بھی وہی
انصاف کی تلاش بھی وہی
سینہ کوبی بھی وہی!
گاڑیوں کا تعاقب بھی وہی!
پولیس گردی بھی وہی
بندوق گردی بھی وہی
امیری بھی وہی
غریبی بھی وہی!
آج سے کچھ ماں پہلے ایک غریب ماں خدا کو بلوچستان کے سیاہ پہاڑوں میں تلاش رہی تھی
آج ایک اور ماں اسلام آباد کے سبزے میں ایک خدا کو تلاش رہی ہے۔

کل ایک غریب ماں بیٹے کی جدائی میں مر گئی تھی
آج ایک امیر ماں بیٹے کے غم میں مرنے جا رہی ہے
کل اک مزدور ماں بیٹے کے زخمی وجود پر زخم گن رہی تھی
آج ایک سیٹھانی ماں بیٹے کے گھائل وجود پر زخم گن رہی ہے
کل ایک ان پڑھ ماں ایسے ہی رو رہی تھی جیسے دردوں سے بھری مائیں بیِن کر تی ہیں
آج ایک پڑھی لکھی ماں بہت ہی مہذب انداز میں گریا کر رہی ہے
کل بھی ایک تحقیقاتی کمیٹی بن رہی تھی
آج بھی ایک تحقیقاتی کمیٹی بن رہی ہے
کل بھی اک ماں ہاری تھی
آج بھی اک ماں ہا ری ہے
کل بھی ملکی میڈیا اندھا،بہرہ،گونگا تھا
آج بھی ملکی میڈیا،اندھا،بہرہ،اور گونگا ہے
کل کہتے تھے کہ نہیں معلوم کہ حیات بلوچ کے سینے میں کتنی گولیاں اتریں؟پر آج گننے والے اور بتانے والے بتا رہے ہیں کہ اسلام آباد کے اُسامہ تسی کے سینے میں بائیس گولیاں اتری ہیں
کوئی ایسا کیوں نہیں لکھ رہا کہ
”نہیں معلوم کے بلوچستان کی ماں کی نیند کتنی بار ماری گئی
پر یہ معلوم ہے کہ ایک اسلام آبا دی ماں کی نیند بائیس مرتبہ ماری گئی!“
کوئی ایسا کیوں نہیں لکھ رہا کہ
”وزیر اعظم کے فرزند قاسم اور ابراہیم سخت سردی میں گرم مشروب کا مزہ لے رہے ہیں
اور اہلیان پاکستان کی مائیں سخت سردی میں ماتم سے گزر رہی ہیں!“
کوئی ایسا کیوں نہیں لکھ رہا کہ
”بائیس سالہ جدو جہد
بائیس سالہ نوجوان
اور بائیس گولیاں!“
اگر کوئی لکھ رہا ہے
تو شیدے ٹلی کی بے ہودہ باتیں
اگر کوئی لکھ رہا ہے تو مردا سعید کی کتے جیسی بھونک
اگر کوئی لکھ رہا ہے تو فواد چوہدری کی اد ادھو ری باتیں
کوئی چھاپ رہا ہے تو وزیر اعظم کی وہ تصویر جس میں وہ لنگر خانے میں غریب بوڑھوں کے ساتھ دال کا نوالہ لے رہا ہے اور سرکا ری کیمرہ مین نے بہت ہو ہشیا ری سے وہ تصویر بنا لی جو تصویر کئی دنوں تک میڈیا سی ریپ کرتی رہی گی۔
میڈیا بھی کیا کرے وہ تو ٹھیری مختاراں مائی
اور سرکا ر بھی کیا کرے وی ٹھہری گینگ ریپ
کاش
کاش
کاش!
کسی پاکستانی اخبار میں ایسی سرخی ہی لگ جائے
کوئی ایسی برینکگ نیوز ہی چل جائے
کوئی ایسی ہیڈ لائین ہی آجائے
”ماؤں کا تعاقب کرتی بندوق گردی!!!“
پر یہ مائیں جون ایلیا کی اس بات کو کب سمجھ پائیں گی کہ
’کیا ( نعوذ باللہ) خدا بھی مر گیا ہے؟
انا للہ وانا الیہ راجعون


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں