کریمہ بلوچ مبینہ قتل، حب میں مظاہرہ اور ریلی

275

بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی ٹورنٹو میں مبینہ قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر ریلی نکالی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

لسبیلہ پریس کلب سے طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈز اٹھا کر مین آر سی روڈ پر ریلی نکالی اور عالمی برادری سے انصاف کی اپیل کی۔

ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ کریمہ مزاحمت کی علامت ہے، نظریئے مرتے نہیں بلکہ وہ ہماری رہنمائی کرتی رہیگی۔

لسبیلہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے لاپتہ ہونے والے انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ہم راشد کی بیرون ملک جبری گمشدگی اور ساجد حسین کی لاش پر خاموشی اختیار نہیں کرتے تو آج کریمہ کا واقعہ پیش نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری خاموشی قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔

دیگر مقررین میں سماجی کارکن عبداللہ بلوچ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے شاہ زیب بلوچ اور دیگر طلباء رہنماؤں نے کہا کہ کینیڈا میں کریمہ بلوچ کا قتل بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے، کینیڈا بری الزمہ نہیں اسے تحقیقات کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ تاحال کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے وجوہات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔ اہلخانہ اور بلوچ سیاسی حلقوں کا دعوی ہے کہ انہیں قتل کیا گیا ہے جبکہ ٹورنٹو پولیس کہ مطابق اب تک کسی جرم کے مرتکب ہونے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔

دوسری جانب کریمہ بلوچ کی سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کے اداروں اور معروف انڈین فلم ہیرون کنگاروات نے ’مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سماجی کارکن کریمہ بلوچ کی ہلاکت انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی فوری اور مؤثر تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔