پروفیسر لیاقت سنی کی جبری گمشدگی ، بی ایس او کے زیراہتمام کوئٹہ میں مظاہرہ

143

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے جامعہ بلوچستان کے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شعوری طبقے کی جان ومال کا عدم تحفظ حکومت حکمرانوں کی نا اہلی اور نا کامی ہے اساتذہ طلباء کے چہروں پر بے بسی کے آثار لاواہ بن کر پھٹ پڑے گا بلوچستان کے مسئلے ومسائل صرف اسٹیج کی تقریروں تک محدود ہیں وزیراعلیٰ جام کمال صوبے کا آئینی سربراہ ہے لیکن آج مستقبل کے معمار وں کو تعلیم دینے والے اساتذہ کے لاپتہ ہونے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جو سوالیہ نشان ہے۔

ان خیالات کااظہار بی ایس او کے زیرا ہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جامعہ بلوچستان کے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کے اغواء کیخلاف احتجاجی مظاہرے سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری شوکت بلوچ، وائس فار مسنگ پرسنز نصر اللہ بلوچ،ماما قدیر بلوچ، بی این پی کے آغا خالد دلسوز، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے عالم بلوچ، سماجی کارکن نمرہ پرکانی، میمونہ بلوچ، بی ایس او ظریف کے محسن ظریف، کوئٹہ زون کے ڈپٹی آرگنائزر نذیر بلوچ، اوتھل زون کے صدر ریاض بلوچ ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

مقررین نے کہا کہ اپنے قیمتی اثاثے کیلئے سراپا احتجاج ہے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی ایک عام انسان نہیں بلکہ تعلیمی طبقے کیلئے ایک اکیڈمی اور بلوچستان کا اثاثہ ہے ۔

مقررین نے کہا کہ ایک سوچی سمجھیں سازش کے تحت ہمارے شعوری طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ شعوری طبقہ بہتر انداز میں بلوچ عوام کے حقوق کیلئے آواز بلند کررہے ہیں شعوری طبقہ میں اساتذہ، طلبا اور سماجی کارکن جن کے ہاتھوں میں قلم کا طاقت ہے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے باشعور بلوچ عوام کی آواز مزید نہیں دبائی جا سکتی لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے حقوق کیلئے جدوجہد سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔

مقررین نے کہا کہ حکمران امن وامان کی صورتحال میں بہتری کے دعوے کرتے تھکتے نہیں لیکن دوسری جانب امن و امان کی یہ حالت ہے کہ رہ چلتے اساتذہ، طلبا عام عوام محفوظ نہیں کسی بھی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں اساتذہ کسی بھی معاشرے کی وہ کریم ہے جو کسی بھی ملک میں مستقبل کے معماروں کو تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہیں اور انہی کی تعلیم و تربیت کی بنیاد پر وہ ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے بے حس حکمرانوں کی نااہلی اور ناکامی کی وجہ سے ہمارے اساتذہ کے جان و مال محفوظ نہیں۔

مقررین نے کہا کہ بلوچ صرف اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ہم یہاں 7000 سالوں سے آباد ہے غدار کے القابات سے نواز کر ہمیں اپنے حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا اپنے اساتذہ، طلبا اور بلوچ قوم کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو بازیاب کرایا جائے بصورت دیگر ہم سخت لائحہ طے کریں گے۔

مقررین نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچ قوم ایک عظیم ہستی کی بازیابی کیلئے سراپا احتجاج ہے، مستونگ سے تین پروفیسرز کو اغوا کیا جاتا ہے جن میں دو کو چھوڑ کر ایک کو اپنے ساتھ لے جایا جاتا ہے بقول اساتذہ اغوا کار تین گاڑیوں میں سوار تھے لیکن بدقسمتی سے آج ہر پروفیسر، طالب علم کے چہرے پر بے بسی کے آثار ہے بلوچستان کے ساتھ ظلم و زیادتیوں کیلئے اسٹیج پر تقریر تو کی جاتی ہے لیکن یہاں کے مسائل حل نہیں کئے جاتے آج یہاں پریس کلب کے سامنے باشعور طبقہ سراپا احتجاج ہے لوگ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں فوری طور پر ریاست اور اس کے ادارے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کی بازیابی کیلئے اقدامات اٹھائے بصورت دیگر ہم بھر پور انداز میں احتجاج کریں گے۔

انہوں نے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ صوبے کے آئینی سربراہ ہے یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کی بازیابی کیلئے اقدامات اٹھائے۔