کولواہ – شبیر شاد

419

کولواہ

تحریر: شبیر شاد

دی بلوچستان پوسٹ

کیچ آوران اور پنجگور کے سنگم پر واقع کولواہ تاریخی لحاظ سے بلوچستان کے سب سے مشہور ترین علاقوں میں سے ایک ہے جبکہ پسماندگی کے لحاظ سے آج بھی پتھر کے زمانے میں ہے۔ ضلع آواران، جس کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے لیکن بظاہر یوں دیکھا جاتا ہے کہ جیسے وہاں انسانوں کے بجائے جانور رہتے ہیں کیونکہ مہذب دنیا میں انسان وہی ہیں، جنہیں ریاست زندگی کے بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اکیسویں صدی کے دور میں انسانوں کے معاشرے میں رہنے والے بلوچوں کیلئے آج بھی وہی انیسویں صدی کے حالات ہیں۔ آج انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے، ہمارے لئے زندگی کے بنیادی سہولیات، کھانے کی لئے روٹی، پہننے کے لئے کپڑا، رہنے کے لیئے چھت تک کی اہم بنیادی سہولیات میسر نہیں۔

یہ علاقہ قدرتی طور پر امیر علاقوں میں آتا ہے۔ کیونکہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ہر طرح کے وسائل موجود ہیں۔ جنہیں قدرت نے تمام قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جن کا ذکر خدا نے اپنے عظیم کتاب قرانِ عظیم کے سورة رحمان میں ارشاد فرمایا ہے لیکن اس کے باوجود اس پورے علاقے میں نہ کوئی اعلیٰ معیار کا سکول ہے اور نہ ہی کوئی ہسپتال، آج کے اس صدی میں جسے علم اور کتاب کی صدی قرار دی گئی۔ اس علاقے میں کوئی کالج یا یونیورسٹی موجود نہیں، جہاں سے لوگ علم کی پیاس بجھا سکیں۔ سرکاری اعلانات کے برعکس علاقے میں انفرااسٹرکچر بری طرح تباہی کا منظر پیش کررہی ہے۔ علاقے میں 98 فیصد آبادی بنیادی تعلیم سے محروم ہے، بنیادی سہولیات بجلی پانی روڈ اور گیس کی سہولیات میسر نہیں، علاقے کے غریب لوگ اپنی غربت کے باوجود تعلیم کوئٹہ، کراچی اور تربت سے تعلیم حاصل کر لیتے ہیں لیکن ڈگری لینے کے بعد پوری زندگی بیروزگاری کی مایوسیوں میں زندگی گزارتے ہیں اگر کوئی نوکری آتی بھی ہے تو وہ ریاست کے پسندیدہ لوگوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے کیونکہ اس ملک میں ایک عام، غریب، اور تعلیم یافتہ بلوچ کو ملک کا سرمایہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان سرکاری سیاسی اور میر معتبر کے بچوں کو سرمایہ سمجا جاتا ہے تاکہ آگے چل کر وہ ریاست کے ہاں میں ہاں ملائے، بڑی کمزوری بهی یہیں سے جنم لیتی ہے۔

یہی وہ وجوہات ہیں، جس کی وجہ سے انسانوں میں آزادی کی نفسیات جنم لیتی ہے، لوگ بغاوت کرتے ہیں۔ پهر اس مظلوم کو دہشتگرد یا کچھ اور کہتے ہیں لہٰذا میں اپنے قلم کے ذریعے ارباب اختیار سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ اس علاقے کے پسماندگی کے خاتمے کے لیے اعلانات سے آگے نکل کر عملی اقدامات اٹھائیں۔ تاکہ یہاں موجود احساس محرومی میں کمی آسکے۔ کولواہ کے نوجوان اور عام آدمی مقتدرہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ علاقے کے بنیادی مسائل حل کرکے ان کو دیگر علاقوں کے برابر میں کھڑا کریں تاکہ وہ آج کے جدید دور میں جہالت اور پسماندگی کی زندگی گذارنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔