کوئٹہ: طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کے جبری گمشدگی کیخلاف احتجاج

261

شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے جب انہیں 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے دیگر افراد کے ہمراہ لاپتہ کردیا گیا تھا۔ بی ایس او آزاد اور ان کے لواحقین کا موقف ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے جبکہ شبیر بلوچ کے علاوہ دیگر لاپتہ افراد کو بعدازاں رہا کردیا گیا تھا۔

ٹی بی پی نمائندہ کوئٹہ کے مطابق دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور شبیر بلوچ کے لواحقین کی جانب سے شبیر بلوچ کے گمشدگی کو چار سال مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرے میں وی بی ایم پی کے رہنماوں، بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین، طلباء اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

مظاہرے سے لاپتہ حسان قمبرانی، حزب اللہ قمبرانی، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، راشد حسین بلوچ، فیروز بلوچ، شبیر بلوچ کے لواحقین سمیت وی بی ایم پی کے نصراللہ بلوچ نے خطاب کیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ساجد گوندل کے گمشدگی کا نوٹس لیا جاتا ہے لیکن زرینہ اور سیما پچھلے چار سال سے ہر دوازے پر دستک دے رہے ہیں لیکن کوئی ان کی جانب متوجہ نہیں ہورہا ہے۔ ہم ایوانوں میں بیٹھے اپنے خود کے نمائندوں سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کیوں خاموش ہیں، ہمیں اپنے علاقائی معتبرین اور نمائندوں سے شکواہ ہے کہ وہ اس حوالے کیوں کچھ نہیں بول رہے ہیں۔

لواحقین نے کہا کہ ہمارا سوال ہمارے مٹی سے تعلق رکھنے دنیا بھر میں موجود افراد سے ہیں کہ وہ چار سالوں میں شبیر بلوچ کیلئے کیوں موثر آواز نہیں بن سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف بلوچ کیلئے نہیں بلکہ سندھی، پشتون اور سب کو انصاف فراہم کرنے کیلئے بات کرنی ہوگی۔

لواحقین کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ایسے علاقے سے تعلق رکھنے والا جہاں نہ پانی، نہ بجلی، نہ تعلیمی ادارے اور نہ روڈ موجود ہے، اس علاقے سے غربت اور ہزار تکلیفوں سے گزر کر شبیر بلوچ تعلیم حاصل کرتا ہے اور اپنے حقوق کی بات کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شبیر بلوچ کو ان کے اہلیہ کے سامنے دیگر افراد کے ہمراہ حراست میں لیکر لاپتہ کیا جاتا ہے جس کے بعد ان کی معلومات نہیں ملتی ہے۔ اور گذشتہ چار سال سے شبیر بلوچ کی اہلیہ اور بہن کبھی پریس کلب کے سامنے، کبھی کمیشن کے سامنے احتجاج کررہے ہیں لیکن انہیں آج تک یہ معلوم نہیں کہ شبیر بلوچ زندہ بھی ہے یا نہیں۔

لواحقین کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ بلوچستان نے وعدہ کیا تھا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا جائے گا لیکن ہم ایک ہفتے سے ان سے ملاقات کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ ملاقات سے گریز کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پر رحم کھا کر ہمیں نظر انداز کرنا بند کیا جائے۔

لواحقین کا کہنا تھا ہمارے طلباء، ہمارے ڈاکٹر، ہمارے اساتذہ سب لاپتہ ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں ہزاروں افراد کو چھن چھن کر لے جایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، اگر ان پر الزام ہے تو الزامات ثابت کرکے انہیں سزا دی جائے لیکن اجتماعی سزا کے تحت لاپتہ افراد سمیت ان کے لواحقین کو اس طرح ماورائے قوانین سزا نہیں دی جائے۔

خیال رہے آج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی احتجاج کو 4089 دن مکمل ہوگئے جس کی قیادت ماما قدیر بلوچ کررہے ہیں۔ اے این پی کے رہنماء نور شاہ اچکزئی، ملک نواب اچکزئی اور حاجی عبداللہ جان اچکزئی نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شبیر بلوچ کے گمشدگی کیخلاف آگاہی مہم کے حوالے سے کمپئین چلائی جارہی ہے۔

اسی طرح سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی جانب سے “لاپتہ افراد آزادی مارچ” کیا جارہا ہے جس میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شریک ہیں جبکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کمپئین کی جارہی ہے۔