حیات مرتا رہیگا – برزکوہی

494

حیات مرتا رہیگا

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جب ایک بچہ نیا نیا شعور کے دہلیز پر قدم رکھنے لگتا ہے تو اسے یہ ادراک بہت جلدی ہوجاتا ہے کہ یہ دنیا ماں کی ممتا اور والد کے شفقت جیسا نرم خو نہیں بلکہ مصائب و مشکلات اور امتحانات سے بھرپور ہے، لیکن زندگی کے پہلے ہی مشکل سے اسکا والد ایک گھنے سائے اور ایک ناقابلِ شکست قوت کی مانند اسکی حفاظت کرنا شروع کردیتا ہے، اسے چوٹ لگے تو والد کو پتہ ہوتا ہے کیا کرنا ہے، بخار ہو یا ہمسائیوں کے بچے تنگ کریں یا پھر اسکول میں کوئی مسئلہ، کچھ بھی ہو سب سے پہلے والد کی یاد آجاتی ہے اور وہ والد آکر ایک پَل میں تمام مسئلے حل کردیتا ہے۔ ہر بچے کا “سپر مین” اسکا والد ہوتا ہے۔ اس سپرمین کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، وہ ہر برائی سے اپنے بچے کی حفاظت کیلئے حاضر ہوجاتا ہے، اس سپر مین کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔ لیکن “سپرمین” کا شرٹ پہنے ایک والد اپنے بیٹے کے خون سے لت پت لاش سے چمٹ کر رورہا ہے۔ “سپرمین ” کے شرٹ میں یہ بے بسی کے آنسو بتا رہے ہیں کہ وہ برائی کی غالب قوتوں پر فتحیاب نہیں ہوسکا، یہ رنج سے زیادہ بے بسی کے آنسو ہیں۔ حیات کا سپرمین ایک ایسے بڑی برائی کی قوت کو نہیں روک سکا، جس نے بلوچستان کے ابتک ہزاروں سپرمینوں کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ اگر انہیں اس برائی سے اپنے حیاتوں کی حفاظت کرنی ہے تو انہیں ملکر ایک عظیم قوت تشکیل دینا ہوگا۔

دوسری طرف ایک ماں ہاتھ اٹھائے ہوئے اپنے خدا سے باتیں کررہی ہے، کیا وہ مغفرت مانگ رہی ہے؟ کیا وہ بددعا دے رہی ہے؟ نہیں وہ بس اپنے خدا سے گلہ کررہی ہے۔ یہ وہی ماں ہے، جب حیات گھر سے نکلا کرتا تو کہتا ” اماں دعا کرنا ” اور اماں ہاتھ اٹھا کر کہتی “اللہ کے باہوٹ ہو ” اور پھر بے فکر ہوجاتی ہے۔ جب حیات مسکراتے گھر واپس آتا تو ماں کو یقین ہوجاتا کہ خدا اسکی سن رہا ہے اور اسکے حیات کی حفاظت کررہا ہے۔ خدا ماؤں کی سب سے پہلے سنتا ہے، انکی دعائیں رد نہیں کرتا اور ہر بار حیات کو سلامت واپس گھر آتے دیکھ کر اسے اتنا ہی یقین ہوجاتا کہ اسکی ممتا بھری دعائیں خدا کی بارگاہ میں قبول ہورہی ہیں۔ یہی یقین تو اسے سونے دیتا۔ اسی لیئے وہ بلا جھجھک حیات کو بڑے شہر پڑھنے بھیجنے پر راضی ہوئی اور کجھور کے کانٹے دار لمبے درختوں پر چڑھنے دیتا۔ اسے بھی اپنے دعاؤں پر اتنا ہی یقین ہوگیا تھا جتنا حیات کو تھا، لیکن اسکے سامنے پڑی بیٹے کی خون سے لَت پَت لاش اسکے ممتا اور اسکے دعاؤں کا مزاق اڑا رہا تھا۔ “اے خدا! تم نے میری دعا نہیں سنی، یا یہ زمینی خدا اتنے طاقتور ہوگئے؟”

پڑے لاش کے پیروں میں نیلے رنگ کے سستے چپل ایک پوری کہانی بیان کرتے ہیں، یہ نیلگی سستے چپل بتاتے ہیں ایسی کڑکتی دھوپ میں ضرورت کے باوجود جوتے پہننا ممکن نہیں تھا، اسلیئے چپل پہن کر مزدوری کی گئی، پھر ایسی کڑکتی دھوپ میں فائنل ایئر کا طالبعلم مزدوری کیونکر کررہا ہے؟ سوائے اس وجہ کہ بہت ضرورتمند ہے۔ یہ نیلگی سستے چپل بتاتے ہیں کہ یہ لاش کے پیروں سے ابھی تک اترے نہیں ہے، طویل دھکم پیل، مارا ماری، بھاگ دوڑ میں تو چپل اتر جاتے ہیں، اسے پکڑا، پیٹا اور قتل اتنا جلدی کیا گیا تھا، قانون، قاضی و جلاد اتنی تیزی سے بنا گیا تھا کہ اسکے پیروں سے سستے چپل تک پھسل کر اتر نہیں پائے تھے۔ یہ نیلگی سستے چپل بتاتے ہیں کہ یہ فوج جو ہر بلوچ کو را، موساد اور این ڈی ایس کا ایجنٹ قرار دیکر قتل کرتا جارہا ہے، وہ محض گولی اتارنے کیلئے سروں اور سینوں کو دیکھ کر نشانہ باندھتا ہے، وہ کبھی ایک بار نظریں نیچے کرکے سستے نیلے چپل نہیں دیکھتا۔ سستے نیلے چپل، پھٹے کپڑے اور بھوکا پیٹ کسی ایجنٹ کا نہیں ہوتا۔

اگر ایمانداری اور اخلاقی جرئت کا مظاہرہ ہو تو شہید حیات کی بوڑھی ماں اور باپ جس کرب سے 13 اگست کو گذر رہے تھے، اس کا شاید ہم تصور نہیں کرسکتے۔ تصویر دیکھ کر آنکھیں، آبدیدہ اور جذبات میں رونگھٹے کھڑے ہوسکتے ہیں، مگر مستقل کرب و درد، احساس سے ہم آج بھی بیگانہ ہیں۔ بس چند بیان و ٹویٹ، مظاہروں و نعروں سے اپنا فرض پورا کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بھی شہید کے والدین کے زخموں کی مرہم پٹی کرکے اپنا حق ادا کردیا۔ سب سے بڑی بدبختی ہماری یہ ہے کہ ہم ابھی تک بہادری، جذباتی، بزدلی، شعور، سنجیدگی وغیرہ کی تعریف سے اس حد تک ناواقف ہیں کہ ہم اپنی مجرمانہ خاموشیوں، بے بسی، نالائقیوں، خوف کو سنجیدگی اور شعور کے لبادے میں ڈھانپ رہے ہیں۔ اور جہاں ہمت و بہادری اور قربانی کہیں نہ کہیں نمودار ہو تو وہاں ہم جذباتیت و رومانویت اور مہم جوئی کا ٹھپہ لگاتے ہیں۔

بالکل حقیقت واضح ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان بلوچستان پر قابض ہوکر ہم پر جنگ مسلط کرچکا ہے اور پنجابی مسلط شدہ جنگ کے خلاف آج باقاعدہ بلوچ قوم سینکڑوں کمزوریوں و خامیوں اور سستیوں کے باوجود اپنی قومی بقاء، قومی دفاع اور قومی نجات و قومی آزادی کی باقاعدہ شعوری جنگ لڑرہا ہے اور بلوچ قوم کا یہ قومی جنگ ایک فطری ردعمل ہے اور اس سے انکار اور منہ موڑنا خود جنگی تاریخ اور فطرت سے انکار کے مترادف ہے اور پنجابی کی مسلط شدہ جنگ کا خاتمہ، ایک مضبوط و شدت اور مستقل مزاجی کے ساتھ بلوچ قومی جنگ کی اندر پنہاں ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی راستہ تھا اور نہ ہی ہے۔

البتہ درمیانی راستے ڈوھونڈنے اور پیدا کرنے کی کوشش، خود کو اور اپنی قوم کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں ہے، جب تک پنجابی کی مسلط شدہ ریاستی دہشتگردانہ جنگ کے بادل اسی طرح بلوچ قوم اور بلوچستان کے سر پر منڈلاتے رہینگے۔ اس وقت تک آپ ہر گلی، ہر دیہات، ہر شہر میں آپ کو حیات جیسے نوجوان کی لاش ملیں گے اور انکے بوڑھے والدین اسی طرح بے بس نظر آئینگے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

بالکل ہمیں ہر طرف اور ہر سطح پر اس انسانیت سوز اور افسوناک واقعے کے خلاف بھرپور آواز اٹھانا چاہیئے، مگر اصل حقائق سے خود واقف ہوکر اپنی قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا چاہیئے کہ بلوچ قوم کا اصل اور حقیقی مرض کیا ہے۔ بدبختی سے ہماری آواز اٹھانے والے ہمیشہ اصل مرض کی تشریح کرنے کے بجائے مرض کے جو علامات ہیں وہ بیان کرتے ہیں، ان کا علاج ڈھونڈتے ہیں، مرض کینسر ہے اور کینسر کی وجہ سے سر میں درد ہے، یہ کینسر کی اگر علامت ہے تو پھر ہم سر درد کو لیکر اس کے علاج کے آہ و بکا کرتے ہیں اور اپنی پوری توجہ سر درد اور اس کے علاج پر مرکوز کرکے سمجھ رہے ہیں کینسر کا علاج ہورہا ہے۔

کیا ہر روز ماتم، افسوس، تعزیت سوگ مناتے رہیں؟ کتنے برس تک؟ کتنے صدیوں تک ہم لاش اٹھاتے رہیں؟ تعزیت کرتے رہیں؟ روتے رہیں؟ افسوس کرتے رہیں؟ چیختے و پکارتے رہیں؟ کیا یہ سلسلہ ختم ہوگا؟ یا اس مرض سے ہم شفاء یاب ہونگے؟ بالکل برمش سے لیکر واقعہ حیات تک بلوچ قوم و دیگر اقوام کا محدود ردعمل بجا ہے، خاموشی سے قابل تحسین ہے اور ہونا بھی چاہیئے لیکن بلوچ قوم خاص طور پر قوم کے نوجوانوں کو یہ احساس و ادراک ہونا چاہیئے کہ جب تک ہم مسلط جنگ کے خلاف ایک مضبوط اور شدت کے ساتھ جنگ نہیں لڑینگے اور جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، اس وقت تک ہم ہر روز رو رو کر ماتم و افسوس کرکے آخر کار ہم اس کیفیت کے عادی ہونگے، پھر ہمارے لیئے یہ ایک معمول بن جائیگا، پھر ہم قومی نجات اور اصل مرض کے علاج کی کوشش بھی نہیں کرینگے۔

آج مجھے بحثیت ایک جہدکار نظر آرہا ہے کہ باقی قوم کو چھوڑیں، ہم آزادی پسند جہدکار بھی کچھ صرف انسانی حقوق کی چمپیئن، کچھ ستار ایدھی اور کچھ عاصمہ جہانگیر بننے کی کوششوں میں لگے ہیں اور پھر ظاہر ہے، یہ رجحان بڑھتا چلے گا اور ایک فیشن بن کر ہر نوجوان از خود صحافی، انسانی حقوق کا علمبردار بن کر یہ سمجھتا ہے کہ میں بھی اپنا فرض نبھارہا ہوں گوکہ یہ غلط چیزیں نہیں ہیں، کسی حد تک ضروری بھی ہیں، مگر ہر ایک کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے، بالکل سب آواز اٹھائیں لیکن اصل مسئلے کو واضح کرنا ہوگا۔

یہ بات میں پہلے بھی دہرا چکا ہوں کہ کیسے تحریک آزادی کو مسخ کرکے انسانی حقوق کا این جی او بنایا جارہا ہے اسلیئے اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے مسائل پر متحرک ہونے حتیٰ کے سماجی مسائل پر آواز اٹھانے میں بھی کوئی قباحت نہیں بلکہ جب تک آزادی کا حصول ممکن نہیں ہوتا، اس وقت تک ہم ان مسائل کو ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتے، لیکن یہاں جو مسئلہ ہے اسے بھی سمجھنا از حد ضروری ہے۔ اور مدغم ہوئے مختلف اجزاء اور عوامل کو الگ الگ کرنا اور پرکھنا ہوگا۔

1۔ اگر کسی بلوچ کا شعبہ صحافت، سفارت یا انسانی حقوق ہے وہ اپنے پیشہ ورانہ مہارت کا استعمال کرکے بلوچستان کے انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے، سماج کو متحرک رکھتا ہے، یہ ایک قابل ستائش عمل ہے۔ انہیں محض اس امر کا ادراک رکھنا چاہیئے کہ یہ مسائل، حقیقی مسئلے، قومی غلامی کے جسم سے پھوٹ رہے ہیں۔
2۔ ایسے واقعات کے گرد سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جائے کہ ایک شاہدی اللہ کے پھانسی، مشرف کے عمر قید، سمیر سبزل کی گرفتاری، پانچ ہزار لاپتہ افراد کے رہائی سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ اور پوری قوت ان واقعات کو عوام کو مجتمع کرنے کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے مقصد سمجھا جائے۔
3۔ دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا نظر آرہا ہے کہ وہ آزادی پسند جہد کار جو شعوری طور پر اس نتیجے تک ایک بار پہنچ چکے ہیں کہ تشدد کا خاتمہ محض تشدد سے ہی ممکن ہے اور حصول آزادی و انقلاب ایک متشددانہ عمل ہے، وہ اس شعور و ادراک کے بعد ریاستی خوف، تھکاوٹ، آرام پسندی یا نظریاتی ناپختگی کے بنا پر انسانی حقوق کے علمبرداری، صحافت، سفارت کا چوغہ پہن لیں اور اسی کو ہی راہ نجات قرار دینا شروع کریں۔ اگر یہ عمل ذات کی حد تک اپنی کمزوری و کوتاہی یا تھکاوٹ کو قبول کرنے کے بعد ہو بھی تو اتنا مسئلہ نہیں لیکن جب وہ اس بدلاؤ کا نا صرف دفاع شروع کریں، بلکہ اپنی اہمیت برقرار رکھنے کیلئے نئی نسل کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ اہم کام یہی ہے، انہیں جان کی بازی لگاکر مشکل راستہ اختیار کرنے کے بجائے بس اپیلیں کرنا ہے تو پھر یہ نقصان کے دائرے میں داخل ہوکر قابلِ تنقید ہوجاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر حیات کے واقعے کا صرف مذمت افسوس ہمدردی تعزیت کی جہاں تک بات ہے تو وہ ظہور بلیدی، عبدالرحمان کیتھران، اسد، لیاقت شاہوانی، ضیاء لانگو بھی کررہے ہیں حتیٰ کہ آئی جی ایف سی خود قاتل ہوکر حیات کے گھر جاکر اظہار تعزیت کرتا ہے۔ پھر یہ فرق ختم ہوگیا۔ مطلب ہم واضح تو کریں کہ پاکستان بلوچستان پر قبضہ کرکے بلوچ قوم اور بلوچستان پر ایک بے رحم جنگ مسلط کرچکا ہے اور شہید حیات جیسے واقعات پیدا ہورہے ہیں۔ کسی ایف سی اہلکار، ڈیتھ اسکواڈ کارندے، سرغنہ یا جنرل باجوہ کی گرفتاری سرعام پھانسی سے بلوچ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کل اس واقعے کی یو این، امریکہ، برطانیہ، یورپ وغیرہ مذمت کریں، نوٹس لیں، جس طرح برسوں سے افغانستان، کشمیر، فلسطین، شام، لیبیا میں مذمت کررہے ہیں، نوٹس لے رہے ہیں، کیا وہاں آج تک دلخراش، افسوس ناک، درد ناک و کربناک واقعات رونما ہونا بند ہوگئے؟

ان تمام سانحات و واقعات کا خاتمہ ریاستی دہشتگردی کے مکمل خاتمے، جنگ کے خلاف ایک موثر جنگ سے ممکن ہے۔ قومی آزادی کی طرف خود کو اور قوم کو اس طرف مائل کرنا ہی راہ نجات ہے۔ صرف اور صرف یو این، یورپی یونین وغیرہ سے دن رات نوٹس و اپیل کا رٹا لگانے سے نہ کچھ ملا اور نہ کچھ ملے گا۔

اب اگر منطق اور دلیل کے ساتھ تلخ حقائق کو پیش کیا جائے تو پھر یہ بات کم عقل، کم فہم لوگوں کے ذہن میں ایک دم آجاتی ہے کہ دیکھو بھائی یہ مہذب دنیا کو نہیں مانتے ہیں۔ ارے بھائی! کون احمق ان کو نہیں مانتا ہے، ان کو تو خدا بھی مانتا ہے، ہم تو انسان ہیں، ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک تشدد کے خلاف اور تشدد کے خاتمے کے لیے وسیع پیمانے پر تشدد مسلط کرنے والے پر تشدد نہیں ہوگا، اس وقت تک اور مستقل طور پر یہ ظلم، یہ بربریت، یہ مسنگ، یہ مسخ شدہ لاشیں، حیات جیسے درناک واقعات ہمارے مقدر کا حصے بنتے رہینگے۔ جب تک آپ کی قومی جنگ موثر اور شدت کے ساتھ دشمن کے خلاف ہر طرف پھیلا ہوا نہ ہو اس وقت تک مہذب دنیا کو اور بھی کام ہیں ۔ ہاں البتہ اپنے دل کو بہلانے چند سادہ لوگوں کو دھوکہ و گمراہ کرنے کے لیے، یہ مہذب دنیا، یہ یو این، جینیوا کنویشن، یورپی یونین، اپیل، نوٹس وغیرہ وغیرہ انتہائی خوبصورت اور پرفریب سبز باغ ہیں۔

میں خود آج تک مہذب دنیا میں مہذبیت کو تلاش کر کرکے سوچتا ہوں، شاید میں لفظ مہذب کی معنی سے نالاں ہوں اور جس مہذبیت کو میں تلاش کررہا ہوں وہ مہذبیت ہی نہیں ہے، اگر دنیا مہذب ہوتا تو اس وقت آپ کی اپیل اور منت کی ضرورت اس کو نہیں ہوتی، اگر وہ مہذب نہیں تو آپ دن میں ہزار بار اپیل کرتے رہیں، اس کے صحت پر اثر اپنی جگہ اس کو شاید اس وقت تک کچھ پتہ بھی نہیں ہوگا۔

ہمیں حقیقت پسند بن کر قوم کو، خاص طور پر نوجوانوں کو حقیقت پسند بنا کر آگے بڑھنا ہوگا، ہم جب حقائق توڑ مروڑ کر اور اپنی پسند و نا پسند کے بنیاد پر پیش کرتے رہینگے، تو یہ جدوجہد خود ہر طرف کنفیوژن کا شکار ہوتا رہیگا۔

مجھے یاد ہے موجودہ جنگ کے شروعات کے وقت، جب جبر و بربریت، مشکلات اور مصیبتوں کا دور دورہ شروع نہیں ہوا تھا تو میرے جیسے سیاسی کارکن، انسانی حقوق کے کارکن، سماجی کارکن، شاعر و ادیب، صحافی وغیرہ خواہ مخواہ سرمچار اور کمانڈر بن کر پھرتے اور تاثر دیتے تھے کہ جب جنگ شدت اختیار کرگیا تو دشمن کی جبر و بربریت میں تیزی آئے گی۔ جنگ طویل ہوا تو خوف و تھکاوٹ بھی نمودار ہوا، سرمچار و کمانڈر بھی معزز سیاسی شہری، صحافی، انسانی حقوق کے علمبردار بن گئے بالکل ان چیزوں سے ہمیں انکار نہیں جو بن گیا ہے وہ بن جائے، مگر کم از کم اس حقیقت کو کھلم کھلا تسلیم تو کرے کہ قومی نجات کا موثر ذریعہ قومی جنگ ہی ہے۔

حیات کا قتل ایک فرد کے ہاتھوں فرد کا قتل نہیں تھا، بلکہ حیات کا قتل بلوچستان کے مظلومیت و محکمویت کا استعارہ ہے۔ حیات کو ایک فرد نے قتل نہیں کیا بلکہ اسے پوری قابض ریاست، اسکی فوج اور اسکی پوری مشنری نے قتل کیا۔ اس قتل کا آغاز بہت پہلے ہوچکا تھا، حیات کے قسمت میں قتل ہونا اس وقت لکھا جاچکا تھا، جب وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ جب 72 سال پہلے اس قابض فوج کی پہلی بریگیڈ کی فوجیوں سے بھری ٹرکیں بلوچستان میں داخل ہونا شروع ہوگئیں تو طے ہوگیا تھا کہ حیات کا کجھور کا باغ اسکا اپنا نہیں اور اسے بہت دور سے آیا شاہدی اللہ نام کوئی شخص کردے گا۔ اب پتہ نہیں کتنے ایسے حیاتوں کے قسمت میں قتل ہونا لکھا جاچکا ہے، جو اب تک پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں۔ ان سب کو قتل ہونے سے بچانے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ان لمبے بوٹ پہنے فوجیوں کو دوبارہ انہی ٹرکوں میں بیٹھ کر واپس جانے پر مجبور کردیا جائے۔ ورنہ حیات مرتا رہیگا اور ہم اتنی موم بتیاں جلاتے رہیں گے کہ موم بتیاں ختم ہوجائینگی لیکن انکی گولیاں نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔