کوئٹہ میں ڈھنک اور دازن واقعات کیخلاف احتجاج

391

برمش یکجہتی کمیٹی شال کے زیراہتمام اتوار کے روز بلوچستان کے دارالحکومت میں ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ احتجاجی ریلی میں چیف آف سراوان نواب اسلم خان رئیسانی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ، بی این پی، نیشنل پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں سمیت خواتین و بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

پریس کلب کوئٹہ کے مظاہرہ کیا گیا۔ سانحہ ڈھنک اور دازن کیخلاف شدید نعرے بازی کی گئی اور گرفتار ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

مظاہرین بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف نعرے بازی کرتے رہیں۔ ڈیتھ اسکواڈ کے مبینہ طور پر سربراہی کرنے والے افراد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور چیف آف ساراوان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے صوبے کی بلوچ پشتون سیاسی و قبائلی قیادت سے اپیل کی کہ وہ متحد ہوجائیں اور صوبے کے ساتھ جاری ناروا مظالم کیخلاف آواز بلند کریں، 72 سال گزر چکے ہیں کہ بلوچ پشتون، سرائیکی اور سندھی آج بھی تقسیم کے عمل سے گزررہے ہیں۔

نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ سرکار لوگوں کو اغواء اور گھروں میں چادر وچاردیواری کے تقدس کو پامال کرکے گھروں میں گھس کر ہمارے خواتین کی بے حرمتی کررہی ہے۔ آج برمش کے ساتھ اظہاریکجہتی کی جارہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں لاکھوں لوگ اکھٹے ہوجاتے اور اظہار یکجہتی کرتے مگر جب ہم صرف دس یا 20 لوگ اکھٹے ہوں تو پھر ریاست بھی ہمارے مسائل سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں مگر بدقسمتی سے جب یہاں کوئی قومی حقوق، واک واختیار ومسائل کے حل کیلئے آواز بلند کی جائے تو لوگوں کو اغواء، ان کے زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں زک پہنچایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی ڈیتھ اسکواڈ فعال ہے ہم نے ان کا محاسبہ کرنا ہے، ریاست سے زیادہ یہ ہمارے لئے خطرناک ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ظلم اور جبر جتنے بھی مضبوط کیوں نا ہوں وہ مزاحمت کو ہی جنم دیتے ہیں۔ بلوچستان میں ایک مہینے دو واقعات رونماء ہوئے ہیں جبکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ آج پورا بلوچستان اس ظلم کیخلاف ایک ساتھ کھڑا ہے۔

مظاہرین نے بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈز کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مذکورہ گروہوں کو ریاستی پشت پناہی حاصل ہے جس کے باعث وہ سرے عام خواتین و بچوں کو قتل کررہے ہیں اور یہی عناصر نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں بھی ملوث ہیں۔

ڈھنک میں ڈکیتی کے دوران ملک ناز نامی خاتون کے قتل اور برمش بلوچ کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد پورے بلوچستان اور بیرون ممالک میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا۔ بعدازاں ایک اور واقعہ دازن کے علاقے میں پیش آیا جہاں مسلح افراد نے گھر میں گھس کر کلثوم بلوچ نامی خاتون کو قتل کردیا اور خاتون کے زیورات سمیت گھر کے دیر دیگر چیزوں کو لوٹ کر لے گئے۔

دازن واقعے کے بعد ایک بار پر احتجاجی مظاہروں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔