طلباء پر تشدد و گرفتاری نوآبادیاتی پالیسیوں کا حصہ ہے- بی این ایم

84

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کوئٹہ میں بلوچ طلبا و طالبات پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گرفتاری، گمشدگی اور تشدد اور قتل عام قابض کے ہاتھوں غلام بلوچ کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ غلامی کے گھپ تاریک ستر سالہ تاریخ ایسی ہی تذلیل سے عبارت ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی بربریت،حیوانیت و درندگی انسانی ضمیر کے سامنے سب سے بڑا سوال بن چکا ہے۔ قومی سیاست تو ایک عرصے سے شجر ممنوعہ بنایا جا چکا تھا، اب نوبت یہاں پہنچ چکا ہے کہ معمولی مطالبات کے لئے احتجاج کا حق چھینا جارہاہے۔ اپنے چند بنیادی شہری حقوق کے لئے بلوچ طلبا و طالبات طویل عرصے سے سراپا احتجاج ہیں لیکن ان مطالبات کے عوض بھی تشدد ہی مل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاجی طلبا و طالبات پر تشدد وگرفتاری ناقابل قبول اورپاکستان کی جانب سے اپنی فرسودہ دقیانوسی تعلیم سے بھی دور رکھنے کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔اکیسویں صدی کے جدید دور میں جن لوگوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہوں، انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر پس زندان رکھنا پوری دنیا میں ناپید ہوچکی ہے لیکن بلوچستان میں روز کا معمول بن چکاہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں سینکڑوں پرائمری، مڈل، ہائی سکولوں اور کالجوں پر پاکستانی فوج کا براہ راست قبضہ ہے۔ بڑے شہروں میں تعلیمی ادارے فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک عرصے سے معمولی مطالبات کے لئے جاری احتجاج پرطلبا تشدد اور گرفتاری کا سامنا کررہے ہیں۔ پاکستان کی اقدامات سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ بلوچ کو خوف زدہ کرکے تعلیم کی حصول سے توبہ کرانا چاہتی ہے۔ پاکستان بلوچ دشمنی میں اس حد تک گرچکاہے کہ یونیورسٹی کے باتھ رومز میں خفیہ کیمرے تک نصب کئے گئے۔ ایسی تذلیل اور ذلت آمیز سلوک کا پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔اس گھناؤنے الزام کے ذمہ داروں کو سزا و جزا کے عمل سے گزارنے کے بجائے مزید ترقیاں دی گئیں۔ آج بے شمار طلباء جبری گمشدگی، حراستی قتل اور جعلی انکاؤنٹر کا شکار بنے۔زاہد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ اور شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں طلباء رہنما آج بھی کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب بلوچ بہنوں نے اپنے بھائیوں کیلئے آواز بلند کرنا شروع کیا تو انہیں تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسیوں میں بھی شدت لائی گئی۔

ترجمان نے کہا پاکستان کے لئے نہ صرف ہماری روایات کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں بلکہ وہ دنیا کے قانون و اخلاقیات سے بھی عاری ہے۔ اس لئے پاکستان کو غیر فطری ریاست کہاجاتاہے۔ ایسی ریاستوں میں لوگوں پر تشدد، حراستی قتل اور اسٹوڈنٹس کو جائز مطالبات پر زندانوں کی نذرکرناغیرمعمولی اورخلاف توقع نہیں۔ بلوچستان پر قبضہ سے لیکرہمیں مختلف صورتوں میں اس کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ پاکستان اپنی کالونیل پالیسیوں کی نفاذ کے لئے کوئی بھی حد پار کرسکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں گرفتار شدگان میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور مہلب دین محمدبلوچ بھی شامل ہیں۔ دونوں بہادر بلوچ بیٹیوں نے ایک کھٹن زندگی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ دونوں کے والد پاکستانی بربریت کا شکار ہوئے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد شہید غفار لانگو دو دفعہ جبری گمشدگی کے بعد دوران حراست تشدد سے شہید کئے گئے جبکہ مہلب دین بلوچ کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ گیارہ سالوں سے لاپتہ ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج ان کی بچیوں کو بھی پر امن مظاہرے میں لاٹھی چارج کے بعد پولیس نے گھیسٹ کر کوئٹہ کی امن کو خراب کرنے کے الزام میں جیل میں پھینک دیاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بلوچ قوم کے لئے یہ مراحل گزر جاتے ہیں لیکن پاکستان کے جرائم کی فہرست میں اضافہ ہی ہورہاہے۔ جلد یا بدیر پاکستان ان جرائم کے لئے تاریخ کے کٹہرے میں کھڑاہوگا۔