جبر کے سائے میں پھلتا بلوچستان – عبدالواجد بلوچ

340

جبر کے سائے میں پھلتا بلوچستان

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب جب بلوچستان چیخ رہا تھا تو ریاست خواب خرگوش میں مبتلا پایا گیا، بہتّر سالہ یہ طویل تاریخ یقیناً کسی بھی طرح خوشگوار تو نہیں تھا اور نا ہی خوشگوار گذر رہا ہے، جب جب بلوچ نے حقوق مانگے تو انہیں بے شرف کیا گیا جب جب بلوچ نے چیخنا چاہا تو اس کے گلے میں آہن ڈالے گئے، ہاں یہی وہ رویے تھے جس سے بلوچستان کے اندر چند کرداریں ایسی تھیں جو مر کر بھی امر ہوئے ہیں لوگوں کے دلوں میں، انکی یادوں میں اور اقوام کی تاریخ میں کیونکہ ان کرداروں نے ریاست کی ان خفیہ نیتوں کو بھانپ لیا تھا جس سے ریاست صرف بلوچستان کو ایک مقبوضہ، مفتوحہ اور اپنا ایک کالونی تصور کرتا ہے. جی ہاں وہ کردار شہید احسان بلوچ اور شہید شھداد بلوچ تھے، جو پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب میں MPhil کے طالب تھے ۔

ہاں انہیں بھی اس ڈگری کے بعد اک سنہرا مستقبل دکھائی دیتا ہوگا، ان کے بھی کئی خواب ہوںگے جنکی ابھی تکمیل باقی ہوگی، ان کے بھی کئی سپنے ہوںگے جنہیں ابھی عملی جامہ پہنانا باقی ہوگا لیکن نہیں انہوں نے اپنا سنہرا مستقبل اپنی آزادی کیلئے تیاگ دیا، اس آزادی کے لئے جن کو ریاست پاکستان نے جبراً غلامی میں تبدیل کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خوابوں کا دھارا بدل کر ان کو بلوچستان کی آزادی کے خوابوں میں بدل دیا اور انکی تکمیل میں لگ گئے انہوں نے اپنے سپنوں میں صرف اور صرف شھادت کی آرزو سجا لیا اور اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مسلح ہو کر میدان کارزار میں کود پڑے اور شہید ہوگئے کیونکہ انہیں یہ احساس ہوچلا تھا کہ روز روز کے چیخنے سے بہتر ہے ہم اس نظام کو ہلائیں جو آئے روز ہماری ماں بہنوں کی غیرت کو پامال کرنے کا موجب ہے اور یہ جبر بہتّر برس پر محیط ایک ایسی تاریک اور سیاہ رات کی تاریخ ہے جس کا ورق ورق بے گناہوں کے خون سے لت پت اور تر ہے۔

بلوچستان کی لہو رنگ داستان کو الفاظ کے سہارے صفحہ قرطاس پر اتار کر رقم کرنا اور سپردِ قلم کرنا بہت مشکل ہے یہ ان دکھی اور بے بس ماﺅں کی داستانِ رنج و الم ہے جنہوں نے اپنے جواں سال لختِ جگر آزادی کی اس بے مثال اور بے نظیر جدوجہد پر قربان کر دیئے لیکن ہمت نہیں ہاری ،یہ ان بہنوں کی درد ناک کہانی ہے جنہوں نے شہزادوں جیسے اپنے بھائیوں کو اس دھرتی سے غاصبانہ قبضہ کا خاتمہ کرانے کی خاطر قربان کر دیئے یہ ان رنجیدہ ونحیف بوڑھے اور ضعیف والدین کا المیہ ہے کہ جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے ہنستے بستے آنگن اور آباد گھر ویرانے میں بدل دیے گئے اور جن کا کھلکھلاتا اور لہلہاتا چمن آگ اور بارود میں جھونک دیا گیا مگر اس سب کے باوجود آج دن تک وہ ریاستی دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہیں ظلم اور جبر کے آگے سر نہیں جھکا رہے.

دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر ایسا کوئی خطہ نہیں جہاں اس قدر طویل عرصہ تک ایک تسلسل کے ساتھ وہاں کے بے بس،مظلوم اور نہتے انسانوں پر اس طرح کا ظلم ہر طرح کی ستم گری اور ہر طرح کا جبر روا رکھا گیا ہو ،بلوچستان کے باشندوں نے ریاست کو ہمیشہ کسی نا کسی طرح موقع فراہم کیا کہ ہم پُرامن ہیں ہمیں ہماری جائز حقوق دے دیئے جائیں لیکن ریاست نے ہمیشہ سوتیلا رویہ اختیار کرکے بلوچ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ نہیں حقوق نہ مانگنا کیونکہ تم لوگ شر پسند ہو دہشت گرد ہو انڈین ایجنٹ ہو ریاست کا یہ وطیرہ ہی ہے کہ بلوچستان میں ہر وہ پُرامن بندہ انہیں دہشت گرد لگتا ہے حالانکہ گودی مھرنگ بلوچ، صبیحہ بلوچ، مھلب دین محمد بلوچ نے تو کوئی طوفان تو برپا نہیں کی تھی بلکہ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ ہم آن لائن کلاسز نہیں لے سکتے کیونکہ بلوچستان میں آن لائن کلاس اپنی جگہ ہمیں آن لائن انٹرنیٹ کی سہولت تک میسر نہیں ہم ایک فون کال سے محروم ہیں تو کس طرح بلوچستان کے باقی پسماندہ علاقوں کے طلباء آن لائن کلاسز سے مستفید ہونگے؟

بس یہی وہ جائز مطالبات تھے، لمحہ نہیں گزرا ان بچیوں کی عزتیں تاراج کی گئیں، انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا اور انہیں یہ احساس دلایا گیا کہ تم لوگ دہشت گرد ہو شرپسند ہو چیخو نہیں کیونکہ تم لوگوں کے لئے جیلوں کی سلاخیں ہونگی پر حقوق کوئی نہیں ہوگا لیکن پھر بھی بلوچستان چیخ رہا ہے اور جبر کے سائے میں پھل رہا ہے اور جبر کے آگے سر نہیں جھکا رہا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔