بلوچستان اور ڈیتھ اسکواڈز ایشو – رشید یوسفزئی

556

بلوچستان اور ڈیتھ اسکواڈز ایشو

تحریر : رشید یوسفزئی

دی بلوچستان پوسٹ

ڈیتھ اسکواڈز کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ سامراجیت کی تاریخ، نوآبادیاتی ممالک کی سب سے بڑی بدمعاشی ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل رہی ہے، ریاستِ پاکستان بھی نو آبادیاتی ممالک کا تسلسل ہے اور اس کا وجود روز اول سے ہی جبر پہ قائم ہے، مختلف ریاستوں اور اقوام کو جبراً فوجی آپریشنز کے ذریعے یا دھوکہ دہی سے پاکستان میں زبردستی شامل کرایا گیا۔ اور پھر اس جبری شمولیت کے بعد ان پر قبضہ برقرار رکھنے کے واسطے مختلف جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے۔

جنرل اکبر خان نے اپنی سوانح عمری “میری آخری منزل” میں لکھا ہے کہ وہ مسٹر جناح کے حکم پر ریاست قلات پہ قبضہ کے لیے اپنی فوج کے ساتھ سٹینڈ بائی آرڈر Standby Order پر تھے، سن اڑتالیس میں انہیں مسٹر جناح نے باقاعدہ تاکید کی کہ یہ سارا معاملہ اس وقت کی میڈیا سے مکمل پوشیدہ رکھنا ہے، یوں ستائیس مارچ 1948 کو بلوچستان پر بزور بندوق قبضہ کیا گیا، اس وقت سے لے کر آج تک بلوچ قومی مزاحمت مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے موجودہ پانچویں مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے۔

مشل فوکو کے مطابق “جہاں طاقت ہوگی وہاں مزاحمت ہوگی”، بلوچ قوم سات دہائیوں سے مسلسل اس بے لگام طاقت کا مزاحمت کرتی آرہی ہے، جب ریاست بلوچوں کے اس مضبوط اور مستقل مزاحمتی تحریک کو روکنے میں ناکام ہوئی تو اس کے سامنے بند باندھنے کے لیے بوکھلاہٹ کا شکار ریاست ننگی جارحیت پہ اتر آئی، مسخ شدہ لاشوں سے لے کر اجتماعی قبرستان اور” Kill and dump policy” ریاستی اداروں کے لیے قومی پالیسیز کے طور پر متعارف کرائی گئیں، ان میں سب سے اہم جابرانہ اور غیر انسانی منصوبہ بلوچستان  کے طول و عرض میں ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل تھی، یہ ڈیتھ سکواڈز دراصل سیکیورٹی ایجنسیز کے بنائے ہوئے کرایے کے قاتل ہیں جن سے اب بلوچستان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا علاقہ بھرا پڑا ہے، ان کی بھرتی کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ جہاں جہاں ریاستی آشیرباد رکھنے والے میر و سردار موجود ہوں، وہاں وہ ایسے ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل خفیہ اداروں کی مدد سے کر کے ان کو چلاتے ہیں اور جن بلوچ علاقوں میں سرداری نظام نہ ہونے کے برابر ہو یا وہاں سرکاری سردار موجود نہ ہوں تو ایسے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں ہتھیار، مہنگی گاڑیاں، مسلح بندے اور پیسے فراہم کیے جاتے ہیں، یوں دیکھتے ہی دیکھتے گلی کا اوباش اور جاہل ترین آدمی جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن جاتا ہے۔

بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈز بنانے کا یہ سلسلہ جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا، پہلے سیاسی میدان کو صاف کیا گیا اور چودھری شجاعت حسین کی اسٹیبلشمنٹ ساختہ پارٹی کو بلوچستان کے اکثریتی علاقوں سے جتوایا گیا، پھر جنرل کیانی کا دور شروع ہوا (وہی جنرل کیانی جنہیں پاکستانی دانشوروں نے ملک کے لیے نیک شگون قرار دیا تھا، ارشاد احمد حقانی سے لے کر ہارون رشید تک ان کی بصیرت کی قسمیں کھاتے رہے)۔

اسی جنرل کیانی کے دور میں بلوچستان کے حوالے سے ریاستی پالیسیز میں یکایک تبدیلی آئی، اب مِسنگ پرسنز کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں ملنے لگیں اسی دور میں ڈیتھ اسکواڈز کی زیادہ مربوط انداز میں تشکیل ہوئی، ڈیتھ اسکواڈز کے لیے باقاعدہ بھرتیاں ہوئیں اور اب منظم طریقے سے ان کی تنخواہیں اور مراعات مقرر کی گئیں، ڈیتھ اسکواڈز کے سرغنوں کو کھلی چھوٹ دی گئ اتنی چھوٹ کے صوبائی وزراء تو کجا، صوبے کے وزرائے اعلی بھی ان کے سامنے بے بس ہوتے چلے گئے۔ جس کا اظہار کافی دفعہ نجی محفلوں میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب رئیسانی خود کرتے رہے ہیں۔

نواب کا اپنا چھوٹے بھائی سراج رئیسانی ڈیتھ اسکواڈ کا اتنا بڑا سربراہ تھا کہ اسے سول بریگیڈ جتنی پوزیشن دی گئی تھی، نواب اسلم اس کے سامنے خاموش تھے، اس کے قافلے کا پروٹوکول ملکہ برطانیہ اور امریکی صدور جیسی تھی، اس کے جنازے میں آرمی چیف کی شرکت ہی اس کے طاقتور ہونے کی بڑی مثال ہے۔

اس طرح بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈز کا پورا جال بچھايا گيا اور بہت سے علاقوں سے انہی کے نامزد کردہ ایم پی ایز و ایم این ایز کو جتوایا گیا، یوں بلوچستان کے صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ایک اور متوازی حکومت بنائی گئی، جس کی وجہ سے تبادلوں سے لے کر تقرریوں تک ان کی مرضی کے بغیر کچھ ممکن نہیں رہا، ایک شہر سے دوسرے شہر تک انہیں مکمل پروٹوکول حاصل ہو گیا، وہ جب بھی چاہتے فوج کے کسی بھی کمانڈ سے کسی بھی وقت بات کرسکتے تھے، آہستہ آہستہ انکی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی، اب وہ اپنی اور اپنے سنبھالے ہوئے لشکر حتی کہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے لیے پیسہ بٹورنے لگے، بلوچستان میں ڈاکٹرز اور وکلاء کے اغواء کا ایک ناتمام سلسلہ چل نکلا اور خوب پیسے بنائے گئے، اس کے عیوض میں بلوچ خون ارزاں ہوا، اب پہاڑوں اور شہروں میں بلوچ کے مقابلے میں باوردی پیشہ ور قاتلوں کے بجائے بغیر وردی کے کرایہ کے بلوچ قاتل ہی سامنے لائے گئے۔ بلوچستان میں بھائی کو بھائی کے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔ اور واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ گھر میں اگر ایک بھائی مزاحمت کار ہے اور دوسرا بھائی بے روزگار اوباش ہے تو سرکار نے وہاں اس اوباش بھائی کو تمام تر مراعات دے کر اپنے ہی سگے بھائی اور دیگر بلوچوں کے خلاف مسلّح کر دیا، مسخ شدہ لاشوں کا کاروبار عام ہوا، اجتماعی قبرستان دریافت ہوئی ، چند سال قبل خضدار کے علاقے تُوتَک میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی جس میں کچھ لوگوں کے مطابق 287 اور کچھ کے مطابق 267 بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں دفنائی گئی تھیں، اس پر سرکار نے ایک کمیشن بٹھایا جس کا سربراہ ہائی کورٹ کے موسٹ جونئیر جج خاران کے نور محمد مسکانزئ کو بنایا گیا، جس نے اپنے آقاؤں کو خوش کرتے ہوئئ لاشوں کی تعداد کو گھٹا کر 287 سے گھٹا کر صرف 13 کر دیا، اور یوں دو سال بعد وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹسی سے نوازے گئے، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے خدمات کے اعتراف میں انہیں فیڈرل شریعت کورٹ کا جج بھی بنا دیا گیا ہے۔

بلوچ معاشرہ کو ہر ممکن حد تک مذہب کو بطور ڈھال استعمال کرکے اپاہج بنانے کی کوشش بھی کی گئی،  کیانی کا دور تو ختم ہوا لیکن ڈیپ اسٹیٹ پالیسی جاری و ساری ہے۔ کہانی وہی رہی صرف کردار بدل دیے گئے ہیں۔ اب کی بار انہیں سیاسی طور پر اخلاقی حمایت میسر ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی گڈ اینڈ بیڈ ڈیتھ اسکواڈ پہ کاربند ہے، جبکہ نیشنل پارٹی برملا شفیق مینگل (خضدار میں بہت بڑے ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ) کا الیکشن میں اتحادی رہا ہے، مکران میں چونکہ سرداری نظام یا قبائل کا وہ سسٹم نہیں ہے اس لیے وہاں ڈیتھ اسکواڈز چھوٹے چھوٹے گروپس میں بنائے گئے ہیں جنہیں پہلے سرمچاروں کے گروپس میں انجیکٹ کروایا گیا تھا، اب وہ ڈیتھ اسکواڈز کے ممبر بن گئے ہیں، انہیں اسمگلنگ کی مکمل چھوٹ دی گئی ہے، وہ انٹیلی جنس اداروں کے کارڈز رکھ کر نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان اہلکاروں کے لیے بھی پیسہ کما رہے ہوتے ہیں جن کے یہ ایجنٹ ہوتے ہیں۔ پاکستانی جھنڈا گاڑی کے سامنے رکھ کر یہ لوگ ٹنوں کے حساب سے منشیات کی اسمگلنگ کرتے ہیں اور بھتے لیتے ہیں، الغرض پاکستانی جھنڈا یہاں دو نمبر لوگوں، نشئیوں، قاتلوں، ڈاکوؤں کی پہچان بن چکا ہے، اسی طرح سیاسی گیم میں ان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں، یہاں منشیات فروشوں کے “امام” کے تعلقات بھی نیشنل پارٹی سے ہیں۔ یوں پارلیمانی سیاسی پارٹیز کا دارومدار منشیات فروشوں اور ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنوں پر ہے۔

مزید برآں ہر علاقے میں ڈیتھ سکواڈز کے مختلف گروہوں کو مختلف مسلح بردار اوباش لیڈ کر رہے، آواران اور مشکے میں یہ سرغنے علی حیدر محمد حسنی, اور مہر اللہ محمد حسنی ہیں، یہ دونوں ڈاکٹر اللہ نذر کی مخالفت میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں،  مہر اللہ محمد حسنی کسی زمانے میں ڈاکٹر اللہ نذر کے ساتھی ہوتے تھے، یعنی کہ سرمچار، آج کل غداری کی سزا بطور سربراہ ڈیتھ اسکواڈ کاٹ رہے ہیں، علی حیدر محمد حسنی کی وابستگی نیشنل پارٹی سے رہی ہے، خضدار تو اس حوالے سے کافی مشہور ہے  سیاسی پردوں میں چھپے ہوئے ڈیتھ اسکواڈز یہاں پہ کافی فعال ہیں، مذہب کے نام پہ ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل ہورہی ہے، حال ہی میں مولانا منظور مینگل کی ملاقات شفیق مینگل سے کروائی گئی، جہاں مذہب سے کام چلتا ہے وہاں مذہب اور جہاں پیسہ سے کام چلتا ہے وہاں پیسہ  ، پیسے اور طاقت کی بھر مار سے وہ ہر اس نوجوان کو ساتھ ملاتے ہیں جو بیروزگار ہو  سراوان میں باقاعدہ مذہبی جنونیت کو فروغ دی گئی، سراج رئیسانی جن کے نماز جنازہ پہ باقاعدہ جنرل باجوہ آئے، ڈیتھ اسکواڈ کا اہم ترین سرغنہ تھا، آج ان کے بیٹے کو ریاستی ادارے اپنی تحویل میں لے کر باقاعدہ تربیتی امور سے گذار رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں وہ کیسے بلوچ کُش پالیسیز پہ عمل پیرا ہوگا، قلات کے ارد گرد بی این پی مینگل کے حمایت یافتہ  قمبر خان کی صورت میں گڈ ڈیتھ اسکواڈز پھل پھول رہے ہیں،  خضدار میں شفیق مینگل کا دایاں بازو زکریا محمد حسنی ہے، یہ وہی زکریا محمد حسنی ہیں جس نے کراچی میں انسانی حقوق کے کارکن سبینہ محمود کو شہید کیا،  سوشل میڈیا میں جنرلوں کے ساتھ آپ اس کے تصاویر دیکھ سکتے ہیں، تربت میں راشد پٹھان, سمیر سبزل جیسے لوگ ایجنسیز کے پیرول پر ہیں، ڈیرہ بگٹی میں ڈیتھ اسکواڈ کی پہلی تشکیل اس وقت جنرل مشرف نے کی اور انہیں نواب بگٹی کے قتل کا ٹاسک دیا گیا، جب نواب بگٹی پہاڑوں پہ گئے تو انہیں قبائلی طور پہ مارنے کی سازش تیار ہوئی، لیکن عین موقع پہ کلپر بگٹیوں کو اندازہ ہوا کہ یہ قبائلی جنگ نسلوں تک جاری رہیگی اور وہ پیچھے ہٹ گئے، اسی طرح پنچگور ، خاران اور بلوچستان کے دیگر مختلف شہروں میں بھی ڈیتھ اسکواڈز مکمل طور پہ فعال ہیں۔

الغرض بلوچستان میں باوردی پیشہ ور قاتلوں کے ساتھ ساتھ کرائے کے قاتل بلوچ قومی جدوجہد کو کمزور کرنے لیے کاربند ہیں، جرائم کی دنیا گرم ہے، ڈکیتی سے لے کر راہزنی اور منشیات فروشی میں انہیں مکمل چھوٹ حاصل ہے، بلوچ ایکٹوسٹس کو ہراساں کرنا، معصوموں کو اغواء کرنا، قتل کر کے پھینکنا ان کا معمول ہے، گذشتہ دنوں ہی تربت کے علاقے ڈنُک میں پیش آنے والا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے، گرفتار ہونے والے ڈاکوؤں کو اداروں کی براہ راست پشت پناہی حاصل ہے۔ وہاں بچہ بچہ جانتا ہے کہ سمیر سبزل اور اس کے ساتھی کن ایجنسیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ صوبايئی وزراء سے لے کر فوج کے کمانڈرز کے ساتھ انکی نجی محفلوں کی تصاویر موجود ہیں جو وہ بڑے فخر سے سوشل میڈیا پہ چلاتے ہیں، اس سے ایک طرف ریاست کی جابرانہ شکل واضح ہوتی ہے اور دوسری جانب یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس ریاست کا دارو مدار ان جرائم پیشہ افراد پہ ہو چکا ہو وہ ریاست اندر سے کتنا کھوکھلا ہوگا، جبکہ اس ریاست کے اس کھوکھلا پن کا اندازہ بلوچ قومی جدوجہد سے منسلک مزاحمت کاروں کو ضرور ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔