گیان و ابھیاس – برزکوہی

721

گیان و ابھیاس

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

سینٹ سائمن کا پورا نام کلاڈزے ہنری سینٹ سائمن تھا، وہ 1760 میں پیرس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ پولینڈ کے بادشاہ کے گارڈ کا سربراہ تھا۔ یہ توبہت بڑا عہدہ تھا، ظاہر ہے کہ اس بچے کی تربیت مشہور عالموں نے کرنی تھی۔ لہٰذاوہ نواب کے آسائشی محل میں پل بڑھ رہا تھا مگر تین عناصرنے اس ننھے نواب کو نظام کا باغی بنا ڈالا۔ اس کے استاد (جین ڈی الیمبرٹ ) نے جو کہ مشہور انسائیکلو پیڈسٹ اور سکالر تھا، روشن خیالی کے نمائندوں کی تصانیف سے آشنائی نے اور آزادانہ غور و فکر کرنے کے جذبے نے چنانچہ تیرہ برس کی عمر میں اس نے چرچ سے ہر طرح کی وابستگی سے انکار کردیا۔ باپ تلملا اٹھا، لہٰذا اُس نے بیٹے کواصلاح کےلئے ایک قلعے میں بند کردیا۔ نوجوان نے رہائی کی کوششوں میں بالآخر جیلر کو چاقو سے زخمی کردیا اور چابیاں چھین کر رہا ہوگیا۔ سترہ برس کی عمر میں وہ فوج میں بھرتی ہوا، ایک جونیئر افسر کی حیثیت سے۔ دو سال بعد وہ رضا کار کے بطور امریکہ گیا اور واشنگٹن کے جھنڈے تلے امریکہ کی جنگِ آزادی میں حصہ لیا۔ اور جب امریکہ آزاد ہوا تو آزاد شدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اُسے بہادری کا ایک تمغہ دیا۔ مگر واپسی پر انگریزوں نے جنگِ آزادی کے اِس مجاہد کو گرفتار کیا اور جمیکا بھیج دیا۔

وہ 1784 میں واپس فرانس لوٹا، جہاں اسے رجمنٹ کمانڈر بنا دیا گیا، سینٹ سائمن امریکی انقلاب میں سے گزر کر آیا تھا، وہ اس زمانے کی روشن خیال تحریک ” انسائیکلو پیڈسٹ“ کے زیر اثر تھا۔ اس نے فرانس میں1789 کے واقعات کا زبردست خیر مقدم کیا وہ رضا کارا نہ طور پر اپنے اعزاز سے دستبردار ہوگیا اور اپنا نام سادہ آدمی رکھ لیا۔ یہ انتخاب سادہ نہ تھا۔ اصل میں فرانسیسی کسان کو سادہ آدمی کہا جاتا تھا سینٹ سائمن نے یہ نام اختیار کرکے انقلاب ِ فرانس کے اصل اسباب پہ زور دینا چاہا۔ وہ دو سا ل تک دیہات میں کسانوں کے درمیان رہا۔

مگر انقلابِ فرانس، ( بعد کے بے شمار انقلابوں کی طرح) اس کی سوچ اور اس کی مرضی کے مطابق نہ چلا بلکہ بڑی بورژوازی کو اقتدار دے کر انقلاب ِ فرانس چپ ہوکر ایک طرف بیٹھ گیا۔ لیکن سینٹ سائمن تو خاموش نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے وہ خاموش نہ ہوا۔ اس نے توکسان حتمی انقلاب کی تمنا کی تھی۔ چنانچہ اس نے 1791 میں شاہ پرستوں اور گرجا کی زمین خریدنی شروع کردی۔ اس نے اُس زمین کے چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنائے اور ضرورت مند کسانوں کو فروخت کرنا شروع کردیا۔ (اُس زمانے میں یہی کچھ سوچا جاسکتا تھا)۔

اُسے اچھا خاصا پیسہ ہاتھ آیا، کاروبار خوب چل رہا تھا۔ اس کاروبار میں ایک ہسپانوی واقف کار بیرن ریڈرن شریک تھا۔ مگر جیکوبن آمریت نے اس لکھ پتی کو لگزمبرگ جیل کے تہہ خانے میں پٹخ دیا۔ اس کا تو سرقلم کیا جاتا اگر ” تھریڈور“ انقلاب دشمن ابھارنہ ہوتا۔ اس نے ایک سال جیل کاٹی۔ باہر نکلا تو پھر وہی کاروبار شروع کیا۔

جولائی1796 میں سیٹ سائمن اور ریڈرن کا مشترکہ سرمایہ نصف کروڑ فرانک تک پہنچ گیا تھا۔ اس کا شریک بہت چالاک تھا ۔ وہ گرفتار ہونے سے بچ گیا تھا اور بیرون ملک بھاگ گیا تھا ۔ پیرس واپس آکر اس نے ساری دولت پر دعویٰ کردیا اور ہمارے ” سادہ آدمی“ کے پاس محض ڈیڑھ لاکھ فرانک رہ گئے۔ یہ اس کے لئے دوسرا بڑا دھچکا تھا۔ پہلا دھچکا تو انقلاب فرانس کے مایوس کن نتائج تھے، جس نے ایک طرح کی لوٹ مارکی جگہ دوسری قسم کا استحصال جاری کردیا تھا۔ سینٹ سائمن کو اندازہ ہوگیا کہ اُس کے پرانے طریقوں سے عالمی ہم آہنگی کا حصول نا ممکن ہے۔

اس نے سب کچھ چھوڑ کر انسانی سماجی سائنس کی تحقیق کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے کئی سال یورپ کے سفر پر لگادیئے، جہاں وہ مشہور سائنس دانوں کے لیکچر سنتارہا، مسلسل مطالعہ کرتا رہا اور تجربات کرتارہا۔ 1803 میں اس کی پہلی کتاب ” اپنے ہم عصروں کے نام جنیوا کے ایک باسی کے خطوط“ چھپی۔ اس میں بھی وہ سماج کی از سر نو تشکیل کرنا چاہتا تھا، اورظاہر ہے کہ یو ٹو پیائی طرز پر ایسا کرنا چاہتا تھا۔ انہی خطوط میں تو اس کا بہترین فقرہ چھپا ہے:”سارے انسانوں کو کام کرنا چاہیئے۔“

1805 میں اس کا سارا پیسہ ختم ہوچکا تھا۔ وہ ایک نواب کے پاس یہ درخواست لے کر پہنچا کہ اُسے کوئی ملازمت دی جائے۔ اس نواب نے اسے پیرس کی ایک دکان میں منشی لگوادیا۔ جہاں وہ دن میں نو گھنٹے کام کرتا تھا۔ اس دوران وہ اپنا سائنسی کام بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔

اس کے سابقہ نوکر ڈایا رڈ نے اپنے خرچے پر اُس کی دوسری کتاب” انیسویں صدی کے سائنسی کارناموں کا تعارف“ چھپوادی۔ ایسا1808 میں ہوا۔

ڈایارڈ جلد ہی مرگیا اور سینٹ سائمن پھر غریب ہوگی ۔ سوکھی روٹی کے لئے بھی، اسے اپنے گھر کی چیزیں تک بیچنی پڑیں۔ وہ تنگدستی میں مزید جذبے کے ساتھ کام کرتا۔ اوراس نے بہت ہی سنجیدہ تصانیف تخلیق کیں۔ مثلاً ”عالمی کشمکش پر تحقیق“ اور ”انسانی سائنس پر ایک مضمون“ ۔اس کے علاوہL,Industrie اور Organisate نامی دو اور کتابیں بھی لکھیں۔1821 میں اس نے ” صنعتی نظام پر ایک مضمون“ نام کی ایک کتاب لکھی۔ وہ فرانسیسی انقلاب ، اس کے اسباب اور نتائج کو موضوع بناتا رہا۔ وہ بحران کے اصل اسباب پر بات کرتا ہے اور انقلابِ فرانس کی اصل منزل (سوشلزم) کی بجائے ایک اور افسوس ناک حالت تک پہنچنے کی وجوہات بیان کرتاہے۔ وہ اس انقلاب کو اس حالت سے نکالنے کے اقدامات پر بھی غور کرتا ہے۔

یہ تھے ہمارے ایک عالم انقلابی سائمن، جس پر میں نے گیان بانٹ دیا، اور آپ نے سحرِ تحریر میں یہاں تک پڑھ لیا اور آپ پر میں نے اپنی قلمی ویرتا کا دھاک بھی بٹھادیا۔ اپنے من آپ، میں نے بھی خوش فہمی کی یہ آسیب پال لی کہ میں نے قلم کمان سے سینہ دشمن کو چاق کردیا ہے اور تبدیلیاں لے آیا ہوں۔

الماری سے کتاب اٹھاکر، پڑھ لینا اور وہاں سے دلچسپ تفرقات و واقعات چھاپ کر لکھ دینا کتنا آسان و خوبصورت کام ہے۔ اس طرح سینٹ سائمن اور اس کی سوچ و صلاحیتوں اور کردار کے بارے میں جانکاری ہوگیا اور یہ بھی کہہ دیا، دنیا میں کیسے کیسے بہادر و محنتی اپنے مقصد سے عشق کرنے والے عظیم انسان گذرے ہیں، واہ! سینٹ سائمن واہ!

ہم جیسے کم فہم انسان اکثر عظیم شخصیات کے عظیم کرداروں و کارناموں کو کتابوں میں ڈھونڈتے ہیں، پڑھتے ہیں، متاثر ہوتے ہیں، ان پر لکھتے ہیں پھر محفلوں و مجلسوں میں منہ میں پانی لیکر ان کو بیان بھی کرتے ہیں۔ مگر جہاں سے انکے نقشِ قدم پر عمل در عمل کی پرکھٹن و سخت کچی سڑک شروع ہوجاتی ہے، وہیں سے ہمارے پیر گاڑی کے بریک پر زور سے پٹخ کر لگ جاتے ہیں، کیونکہ ہمیں وہاں سڑک پر ایک بڑے بورڈ پر یہ لکھا نظر آجاتا ہے کہ ” اس سے آگے عظیم انسانوں کو پڑھنے کا نہیں عظیم انسان بننے کا راستہ ہے۔”

کیا ہمارا یہ بےعمل علم خود بےعلمی کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟ انسان سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں پڑھے، لکھے، ریسرچ کرے، بیان کرے، مگر جب چند صفحات و پیرگراف تک پر عمل سے کتراتا ہو پھر کیا خود علم بے عملی کے قبر میں دفن نہیں ہوگا؟

علم، عمل کا ماخذ ہے اور پھر عمل کا علت بھی۔ جب علم کو اسکے ماخذ اور پھر اسکے علت سے پیدا ہونے والے عمل سے کاٹ کر دیکھو تو پھر اپنے سیاق و سباق کے بغیر یہ محض زبانی جمع خرچ ہوکر نہیں رہ جاتا ہے؟ علم کہاں سے اور علم کس لیئے؟ جیسے سوالات کو نظر انداز کرکے محض علم پر ہی تکیہ کیئے رہو، پھر کیا اسکی کوئی افادیت ثابت کی جاسکتی ہے؟

ہمارے عمل سے کوسوں دور دانشور، لکھاری، ادیب و شاعر اور فنکار ضرور پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، اس حد تک کہ وہ اپنے دل و دماغ اور خیالوں کی جنت میں سینٹ سائمن و کارل مارکس بن جاتے ہیں، مگر عملی طور پر انقلاب و آزادی کی جنگ میں حصہ داری کو اژدھا سمجھ کر اس راستے کی طرف نہیں دیکھتے ہیں۔ پھر یہ من گھڑت دلیل پیش کرتے ہیں کہ جی کیا کریں، معاشی مجبوریاں ہیں، بچے ہیں، گھر ہے، خاندان ہے، ان کا بھی پیٹ پالنا ہوگا، خالی پیٹ سے انقلاب نہیں آئے گا، پھر گھر کو سنبھالنے والا کون ہوگا؟ لوگ بھوک سے مرجائینگے۔

چلو، ہم مان لیتے ہیں، یہ سب باتیں ٹھیک ہیں، پھر اپنی توثیق ذات مین، اس کارل مارکس کی مثال پیش کیوں کرتے ہو، جس کے پاس اپنے بچے کو دوائیاں فراہم کرنے تک کے پیسے نہیں تھے، لیکن پھر بھی اپنا کوٹ بیچ کر دوائی نہیں پیسوں سے پمفلٹ چھاپتا ہے۔ پھر کیوں سینٹ سائمن کی مثال پیش کرتے ہو، جو بحران در بحران کے باوجود اپنے مقصد و کام پر استقامت سے کھڑا رہتا ہے اور غور و فکر و عمل کو نہیں چھوڑتا؟

ہم یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ دنیا میں کروڑوں ایسے انسان اب بھی موجود ہیں، جو لائیبریریوں اور کتابوں کے کیڑے ہیں لیکن عملی طور پر صفر جمع صفر ہیں، پھر ان کا علم و تحقیق اسی طرح بیکار ہے، جس طرح آپ کسی خوبصورت پھول و پودے کو پانی و سورج کی روشنی سے دور رکھیں؟ ان پودوں کی خوبصورتی و خوشبو ختم ہوجائے گی۔ اسی طرح علم و تحقیق، مطالعہ، تحریر و تقریر، وہ پودے ہیں جہاں ان پر لفظ بہ لفظ عمل نہ ہو تو وہ بیکار و فضول ہونگے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے عمل کیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے، جب آپ انقلاب کو پڑھتے ہیں، آزادی کی تحریکوں کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں، آپ ان سے متاثر و مطمیئن بھی ہوتے ہو، پھر آپ یہ بھی سوچو اور ترازو اٹھا کر ناپ و تول کرو، آپ خود انقلاب و آزادی کیلئے کس حد تک تیار ہیں؟ کس حد تک جاسکتے ہو؟ جس حد تک جہاں تک جاسکتے ہو یا جارہے ہو، کیا وہ واقعی حالات، انقلاب یا تحریک کے تقاضات پر پورا اترتا ہے؟ اگر ترازو میں بیانات و اظہار، کتابی حوالہ جات کا پلڑا بھاری ہو، عمل کا پلڑا خالی ہو، پھر یہاں سے بے عمل کی واضح تشریح و معنی کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

جس طرح ہر عمل نے تجربہ اور تجربے نے علم کو جنم دیا، اسی طرح ہر علم کا منطقی مقصد ان تجربات کے نچوڑ سے با نتیجہ عمل کو جننا ہے۔ عمل برائے علم اور علم برائے عمل۔ اگر علم کو محض کتابوں تک موقوف رکھا جائے تو بلا مقصد کتابوں کے صفحے تو دیمک بھی چاٹتا، فرق کوئی نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔