سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 17 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

340

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر | گوادر بندرگاہ

ماہی گیری کی آمدن
بلوچستان میں اِس وقت ماہی گیری کے قصبوں اور گاؤں کی تعدادچالیس ہے۔ ان میں سے آٹھ سٹیشن بڑے ہیں جہاں سے برآمد کرنے یا، اندرونِ ملک سپلائی کے لیے مچھلی شفٹ کی جاتی ہے۔ گوادر، پسنی اور گڈانی پر مشتمل تین فش ہار بر ہیں بلوچستان میں۔ چار جیٹی جیوانی، پیشکان، سوربند، اور ڈامب میں زیر تعمیر ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں 29 فش پراسیسنگ یونٹ اور 30 برف کے پلانٹ موجود ہیں۔ مین کوسٹل ہائی وے اور آر سی ڈی شاہراہ کے ساتھ جیوانی، گنز، پیشکان، گوادر، کپر، پسنی، اورماڑہ، ھڈ، کُنڈ ملیر، ڈامب، سومیانی اور گڈانی کو ملا دیا گیا ہے۔

ہمارا جھینگا اور مچھلی زیادہ تر جاپان اور امریکہ کو برآمد ہوتا ہے۔ جھینگا تقریباً سب کا سب ہی برف میں جما کر باہر بھیجا جاتا ہے۔ جماتے وقت جھینگے کا سر اور چھلکا نکال دینے کی وجہ سے وزن آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ 1955ء سے لے کر 1961ء تک حکومت نے57 لاکھ 62 ہزار پاؤنڈ ایسے جمے ہوئے جھینگے برآمد کیے لیکن اس کی اوسط قیمت پونے تین روپے فی پونڈ ملی جب کہ کراچی کے اپنے بازار میں سر اور چھلکے سمیت تازہ جھینگے کی قیمت چار، ساڑھے روپے پونڈ تھی۔ اگر اس میں فیکٹری کا خرچ اور مزدوروں کی اجرت شامل کردی جائے تو ہم بہ خوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ جھینگے کی برآمد میں ہمیں کتنا نقصان ہوا۔ لیکن سردخانوں یا مچھلی کے کارخانوں کے مالک ظاہر ہے کہ نقصان والا دھندہ تو نہیں کریں گے۔

1963ء میں کراچی میں تیرہ فریزنگ اور کیننگ پلانٹ تھے لیکن خام مال کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی پیداواری گنجائش کی آدھی پیداوار بھی بمشکل کرسکتے تھے۔ اسکے باوجود حکومت نے گیارہ مزید کارخانے لگانے کیلئے لائسنس جاری کردیئے۔1988 ء تک فریزنگ پلانٹس کی تعداد بڑھ کر اٹھارہ ہوگئی اور کیننگ پلانٹ کی تعداد چار ہوگئی۔ ان کارخانوں کو مچھلی اور جھینگا پہنچانے کے لیے جس بے دردی سے ہماری مچھلی ماری جارہی ہے اس سے بلوچستان کے سمندری ذرائع کو نا قابلِ تلافی نقصان ہوا۔ فیکٹری مالکان اتنے لالچی ہیں کہ اکثر مرتبہ مالکان کئی کئی روز تک جھینگا نہیں اٹھاتے اور ماہی گیر بھوک اور افلاس سے مجبور ہوکر سستے داموں پر مال دینے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں (لعنت ہے سرمایہ داری نظام پر!!)۔

مچھلی کی مارکیٹنگ تین طریقوں سے ہوتی ہے:
-1 کراچی یا بیرونی ممالک سے کچھ تاجر تو کھلے سمندر میں مچھلی خریدتے ہیں۔ اس طرح وہ اِن بے چاروں سے سستا بھی خرید لیتے ہیں، ساحل تک سفر بھی طے کرنا نہیں پڑتا اور پورٹ چارجز سے بھی بچ جاتے ہیں۔
-2 دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مچھلی، گوادر اور پسنی فش ہاربر پر بیجی جاتی ہے، جہاں سے تاجر اُسے کراچی بھیج دیتے ہیں۔
-3 تیسرا طریقہ یہ ہے کہ بے کار مچھلی یا تھکا ہارا غربت کا مارا ماہی گیر اپنی مچھلی مقامی منڈی میں بیچ دیتا ہے۔

مچھلی کومحفوظ رکھنے کے لیے اب خشک کرنے اور نمک لگانے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے۔ برف کے کارخانے لگ رہے ہیں۔ گوادر ضلع میں پندرہ برس قبل سولہ برف کی فیکٹریاں تھیں۔ جن میں سے چھ گوادر میں، ایک سور بندر میں، دو جیونی میں، چار پسنی میں اور تین اورماڑہ میں تھیں
۔
جیسے کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ کیننگ کراچی میں کی جاتی ہے۔ کاش کہ ہم مکران میں انٹر نیشنل معیار کی کیننگ انڈسٹری قائم کرسکتے۔

اسی طرح ہم پولٹری کی خوراک کے لیے بھی صنعت لگا سکتے ہیں۔ مگر کارخانوں سے تو مشرقی اور وسطی بلوچستان میں قبائلی نظام کو خطرہ ہے اور مکران بے چارہ تو مشرقی اور وسطی بلوچستان کے سرداروں کی خدمت گاری کرتا رہا ہے۔
بلوچستان کی نہروں، جھیلوں، ڈیموں اور مچھلی کے سرکاری تالابوں میں 2011ء میں تین ہزار میٹرک ٹن مچھلی پکڑی گئی جب کہ اسی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچ ساحل پر 2011ء میں ایک لاکھ پینتیس ہزار میٹرک ٹن مچھلی پکڑی گئی۔ جس کی مالیت 12,698,290,428 روپے تھی۔

کلری اور جیارو بھی بیرون ممالک کو بھیجی جاتی ہیں۔ انہیں برف میں جما کر ہوائی جہاز کے ذریعے باہر بھیجا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نعمت بلوچستان کو حاصل نہیں ہے۔ یہ چیزیں دور کراچی میں بیٹھے سر مایہ داروں کے کنٹرول میں ہیں جن کے بڑے بڑے بنگلے ہیں رہنے کے لیے، اجلی اجلی کار موٹریں ہیں سواری کے لیے، 200 چینل رکھنے والے ٹی وی سیٹ اور کلب ہیں تفریح کے لیے، موبائلیں فضائی بھی، اور سٹیلائٹ مواصلات کے لیے سات سمندر پار ممالک میں سیر کے لیے۔ وہ مچھلی خریدتے اگر ایک روپے میں ہیں تو بیچتے سات روپے میں ہیں۔ ہم تو بس بے اوزار ہی رکھے گئے جانور ہیں، ان کے منافع کے لیے کام کرتے ہیں۔ سائنس، منافع، سہولت اور ترقی بلوچ پر حرام کردی گئی ہے۔

ان سرمایہ داروں کے بلوچستانی ہرکارے (بیورو کریٹ) عقل و سوچ سے مبرا کردیے گئے ہیں۔ گونگے، بہرے، جی حضوریے…… ماہی گیری سمندر میں ہوتی ہے اور افسران کوئٹہ میں سازش کے اڈے یعنی سول سیکریٹریٹ میں اپنے بچوں کی روزی حرام کرنے بیٹھتے ہیں اور آلودگی بھری جلیبیاں کھاتے ہیں۔ محکمہ فشریز میں کئی سیکرٹری ایسے بھی لگے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں سمندر دیکھا تک نہیں، انہیں بلوچی کا ایک لفظ بھی نہیں آتا۔ جنہوں نے سمندر کی وسعتوں میں کبھی زھیروک کی خوش الحانیاں چکھی نہیں۔ وزیر ایسے لگے ماہی گیری کے، جنہوں نے زندگی میں مچھلی کا شکار تک نہ کیا، جن کے علاقوں میں مچھلی کا کھانا تک حرام تصور ہوتا ہے…… بہت کچھ بدلنا ہوگا، بلوچستان! تیرا بہت کچھ بدلنا ہوگا۔

نئی ”ڈیپ سی فشنگ پالیسی“ کے تحت بلوچستان کی صوبائی حکومت ساحلی لائن سے 35 ناٹیکل میل تک علاقائی پانیوں میں، ماہی گیری کے وسائل کو ڈھونڈنے، فائدہ اٹھانے، کنٹرول کرنے اور انتظام کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ژوب سے، مری بگٹی سے، پٹ فیڈر سے لیے گئے وزیر کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ناٹیکل میل ہوتی کیا بلا ہے۔ ہم کیا ترقی کریں گے، کیا برآمد کریں گے!!۔

بلوچستان کے ساحلی پانیوں میں مچھلی پکڑ کر بلوچ ساحل پر اتارنے والی مچھلی کی مقدار 119,000 ٹن سالانہ ہے۔ جب کہ مزید 60,000 ٹن پکڑی تو جاتی ہے بلوچستان میں، مگر اتاری جاتی ہے کراچی میں۔ دونوں کو ملا کر تقریباً 2 ارب روپے سالانہ کی مچھلی بلوچ سمندر میں پکڑی جاتی ہے (ہم پھر بھی غریب صوبہ کہلائے جاتے ہیں اور مرکز خدا ترسی میں ہمارے صوبائی بجٹ کا خسارہ عطا کرتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ وسیع صوبائی خود مختاری مالی حقوق کی دستیابی کے علاوہ ہماری عزتِ نفس، ہماری خود داری کے لیے بھی اشد ضروری ہے)۔

سچی بات یہ ہے کہ سمندری ماحولیات کو بگاڑے بغیر ہم تین لاکھ ٹن ماہی پکڑ سکتے ہیں۔ ابھی ہم 180,000 ٹن ماہی پکڑ سکنے کے قابل ہیں۔ یعنی ہم ابھی تک سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار ٹن مزید ماہی پکڑ سکتے ہیں۔ جس کے لیے ہمیں مزید بارہ سو کشتیوں کی ضرورت ہو گی۔ مگر یہ بات حتمی ہے کہ وفاقی حکومت ہر طرح سے ہمیں تباہ و برباد کر نے میں لگی ہوئی ہے۔ بجائے ہمیں سہولتیں دینے، مدد کرنے کے اس نے 1988ء سے کوریائی ٹرالرز کو ماہی گیری کی اجازت کے لائسنس جاری فرمائے ہیں۔ ایک ٹرالر 3×12کلو میٹر رقبے کی ساری مچھلی کا صفایا کرسکتی ہے، جب کہ ایک نہیں، دو نہیں،150غیر ملکی ٹرالروں کو لائسنس جاری کر دیے گئے۔ ہمارا مستقبل بھوک، ہمارا حال بھوک۔ ہماری تقدیر رہن رکھی جا رہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔