نصیر آباد ڈویژن کے گرین زون کے مسائل – اقبال بلوچ

617

نصیر آباد ڈویژن کے گرین زون کے مسائل

تحریر: اقبال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یوں تو بلوچستان میں کل ملا کر 51 ریاستیں قائم ہیں۔ جن میں 11 خواتین کی ریاستیں اور 3 اقلیتوں کی ریاستیں ہیں۔ اولذکر 51 ٹھیک ٹھاک قسم کی ریاستیں ہیں جبکہ خواتین اور اقلیتوں کی ریاستیں بھی انہیں کے زیر اثر رہتی ہیں۔ انہیں اگر ڈویژنوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر ڈویژن میں تقریباً 6 یا 7 ریاستیں آتی ہیں۔ یعنی صوبے کے ہر تین اضلاع کو ملاکر ایک ریاست بنائی جاسکتی ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خود بلوچستان اب ریاست نہیں رہا، یہ 51 ریاستوں والے مذاق سے کیا مطلب؟ آپکا غصہ بجا ہے مگر اپنے غصے کو احقر کی طرف موڑنے سے پہلے صرف ایک بار سوچیں۔ کیا صوبائی اسمبلی کے 51 منتخب اراکین اپنے اپنے حلقوں یعنی ریاستوں کے بادشاہ نہیں ہیں۔ آپ آج کے وزراء کو چھوڑیں پچھلے پانچ سالوں میں وزیر و مشیر رہنے والوں کے محلات دیکھ لیں آپ کا منہ ایک دم کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ آپ کسی بھی معزز رکن اسمبلی کو دیکھ لیں وہ آپکو عوامی خادم کم اور اپنے ریاست کا بادشاہ زیادہ نظر آئے گا۔ ان میں سے کسی ایک رکن اسمبلی کا ہی بتادیں کہ یہ عوامی خدمت کے جذبے سے آئے ہیں۔ پھر بھی یقین نہ آئے تو حالیہ وبائی صورتحال کو ہی دیکھ لیں، سب اپنی اپنی ریاستوں میں قرنطینہ ہوگئے ہیں۔ ڈر ہے کہ خاکم بدہن انہیں کچھ ہوگیا تو انکی ریاستوں کا کیا ہوگا؟

بات ہورہی تھی صوبے کے ریاستوں کی تو نصیرآباد ڈویژن وہ خوش نصیب ڈویژن ہے جس کے حصے میں 7 ریاستیں آتی ہیں۔ نصیر آباد ڈویژن میں جمالی، عمرانی، مگسی، کھوسہ، رند، ڈومکی، گیلو اور لہڑیوں کی ریاستیں قائم ہیں۔

کہنے کو تو نصیرآباد ڈویژن صوبے میں خوراک لائیوسٹاک کے پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے، تاہم ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس یعنی انسانی ترقی کے اعشاریے یہاں حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انسانی ترقی کی شرح کے حوالے یہ صوبے کا آخری ڈویژن ہے۔ یعنی ماضی قریب میں بننے والی لولی لنگڑی رخشان ڈویژن سے بھی بہت پیچھے۔ نصیر آباد ڈویژن انسانی ترقی کے اعشاریوں کے حوالے سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔

نصیر آباد ڈویژن کا ایک اور طرہ امتیاز بھی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ نصیر خان نوری کے نام سے منسوب ہے۔ آپ بجا سوچ رہے ہیں۔ مگر اسکا طرہ امتیاز کرپشن ہے یہ کرپشن میں پہلے نمبر پر آنے والا ڈویژن ہے۔ یہاں محکمہ زراعت اور آبپاشی سب سے کرپٹ محکمے سمجھے جاتے ہیں۔ افسران بھاری رشوت دیکر یہاں پر اپنی تعیناتیاں کراتے ہیں۔ یہاں ایک 14 سکیل کا کلرک اتنا کماتا ہے جتنا صوبائی دارالحکومت کویٹہ میں 18 گریڈ کا آفیسر۔

مواصلات و پولیس تیسرے و چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔ جبکہ جنگلات اور دوسرے محکمے بھی لائن میں اوپر کی جانب رواں ہیں۔ بڑے پیمانے پر صوبے کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے والا یہ ڈویژن خود مگر بھوکا ہے۔ یقین نہیں آتا نا؟ آپ زرا کوئی خیراتی مہم شروع کریں آپکو اندازہ ہوجائے گا کہ والیان ریاست کیسے بھوکوں کے جیسے جھپٹ پڑتے ہیں۔ عوام بیچارے تو دور سے ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

بھوک ہی اس ڈویژن کے مسائل کی بنیاد ہے۔ ان ریاستوں کے والیوں کے شاہ خرچیوں سے کچھ بچے گا تو عوام کی فلاح پر خرچ ہوگا۔ گدی نشین ان شہزادوں کے گاڑیوں کی تیل کا خرچہ پورا صوبہ چلانے کیلئے کافی ہے۔ یہ اتنے شاہانہ زندگی گزارتے ہیں کہ ملتان کے مخدوم اور سندھ کے پگارا بھی شرم سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ انکا خرچہ پانی بھلے وقتوں میں کونسلر و ناظم منتخب ہونے سے چلتا تھا اب یہ ترقی پاکر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہونے سے ہی چلتا ہے نہیں تو بقول ایک راہک کے کہ “بابا یہ حکومت میں ہی اچھے ہیں نہیں تو یہ ہم غریبوں کو زندہ کھاجائیں گے۔” المیہ دیکھئے کہ 2018 کے ایک رپورٹ کے مطابق یہاں کے مقامی باشندوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ انہیں پولیو کے قطروں کے بدلے پینے کیلئے صاف پانی فراہم کیا جائے۔

یوں تو پٹ فیڈر کینال، کیرتھر کینال اوچ کینال یہاں کی وسیع و عریض میدانوں کو سیراب کرتی ہیں اور چند برسوں تک کچھی کینال بھی یہاں سبز انقلاب برپا کرنے کیلیے تیار ہوجائے گی مگر پینے کا صاف پانی آج بھی یہاں کے مکینوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہاں صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کا ہے۔ پورے ڈویژن میں ڈھنگ کا ایک بھی ہسپتال موجود نہیں ہے۔ ماؤں اور بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اوپر سے کینال کا دھندلا پانی پینے کی وجہ سے ڈویژن کے نصف سے زیادہ افراد ہیپی ٹائٹس میں مبتلا ہیں۔ جس کی دوا مہنگی اور غریبوں کی پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے صرف والیان ریاست یا ان کے جانشینوں کو ہی میسر ہے۔

آخری تجزیے میں یہاں کا بڑا مسئلہ غربت ہے۔ ایک جائزے کے مطابق یہاں کے تین چوتھائی مکین خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سب کو کھلانے والے یہاں کے فاقہ کش راہک و بزگر سالوں تک بوتھار کے مقروض رہتے ہیں۔ یوں یہ استحصال کاسلسلہ عشروں سے جاری ہے اور کچھ بعید نہیں کہ یہ جاری رہے گا۔ اس زرعی نظام اور غیر منصفانہ نظام زر میں بچے اور خواتین سب سے زیادہ استحصال اور جبر کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہی راہک اور بزگر کارآمد سمجھاجاتا ہے، جسکی زیادہ بیویاں اور دسیوں بچے ہوں۔ یوں گندم کی کٹائی سے لیکر چاول کی بجائی تک یہ انسان نما مشین بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ مگر حیرت ہے یہاں سوشلسٹ انقلاب کیلئے بہترین حالات ہونے کے باوجود انقلاب آج تک نہیں آیا۔ یہ الگ بات کہ یہاں کامریڈ و لبرل اور صحافی وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔

صحت غربت بھوک کے بعد یہاں کا بڑا مسئلہ تعلیم کا ہے۔ پورے ڈویژن میں ایک بھی جامعہ نہیں ہے۔ اب کہیں جاکر چاکر رند یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے، جو حوصلہ افزا امر ہے۔ ڈویژن میں یوں تو سینکڑوں سکول اور کالج ہیں مگر ان میں سے اکثر یاتو کاغذوں تک محدود ہیں یا پھر والیان کے زیرِ قبضہ اہلکاروں کے استعمال میں ہیں۔ اساتذہ یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو یاتو زمین دار ہوتے ہیں یا صحافی یا پھر منسٹروں کے آگے پیچھے پھرنے والے چمچے۔ یہاں پرائمری کی سطح پر داخلے کی شرح 30 فیصد ہے جو مڈل میں جاکر 8 اور ہائی تک 6 فیصد رہ جاتی ہے۔ واللہ عالم اسکے بعد کیا ہوتا ہوگا۔ دیگر مصائب میں شہری علاقہ جات میں 12 تا 14 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ، جرائم کی شرح میں اضافہ، انصاف کی عدم فراہمی، کاروکاری، بنیادی ڈھانچے کا نہ ہونا، وٹہ سٹہ، خواتین کا استحصال، بچیوں کی کم عمری میں شادیاں، زچگی کے دوران زچہ و بچہ کی اموات جیسے سینکڑوں مسائل سبی اور نوتال کے N95 کے قومی شاہراہ پر ہاتھ جوڑے آپکا منتظر نظر آئیں گے۔ ڈیرہ مراد جمالی سے یہ شاہراہ ٹوٹ پوٹ کاشکار ہے غالباً 2010 کے بعد اس پرکام نہیں ہوا ہے۔

یہ سڑک درہ بولان سے گزرتے ہوئے آپکے ذہن میں منقش یادوں کو بھلانے کیلئے کافی ہے۔ والیان ریاست جب یہاں سے گذرتے ہوں گے تو کیا سوچتے ہوں گے اسکا جواب شاید یہی ہے کہ سوچنا کس نے ہے بابا؟ اللہ سائیں خیرکرے گا۔ ہل ادا ہل
یہاں کے لوگوں کی بے بسی کا اندازہ انکی نم آنکھوں سے، پھٹے لباس، مالک کے پاؤں کو بڑھتے ہاتھوں سے، سرکاری افسران کے آگے جڑے ہوئے ہاتھوں سے، کرب وآلام اور جھریوں بھرے چہروں، بے بسی اور لاچاری کے عالم میں رنجیدہ ہونٹوں سے اور مالک کی خوشنودی کیلئے کھسیانی ہنسی ہنسنے والے روتے چہروں سے خوب لگایا جاسکتا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ ستر سالوں سے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا۔ سونے پے سہاگہ یہ کہ خطے میں رونما ہونے والی تقریبآ تمام انقلابات اور جنگوں کا مگر اس خطے پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ صوبے میں اٹھنے والی پانچوں بغاوتوں میں اس ڈویژن کے باسیوں کا کیا کردار رہا ہوگا کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں شاید۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔